خواتین کو چاہیے کہ جب بھی وہ اپنے شوہر میں کوئی خامی یا
تبدیلی پا ئیں انہیں ایک کاغذ پر تحر یر کرلیں اور اس کے سامنے وہ ممکنہ وجوہات
بھی لکھیں جو ایسی صورت میں کسی بھی عام آ دمی کے ساتھ پیش آسکتی ہیں اور پھر
فیصلہ کریں اور مثبت پہلوو کو سامنے رکھیں۔اگر شوہر دفتر سے گھر دیر سے آر
ہا ہے تو یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ دفتروں میں اکثر اوقات کام کی زیادتی اور
دباو کے باعث ایسا ہو سکتا ہے اور اگر وہ اپنا کام محنت اور لگن سے کر رہا
ہے تو وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ آپ کو اور آپ کے بچوں کو ایک اچھی اور پر سکون
زندگی دینا چا ہتاہے۔اگر وہ کسی خاتون کی مدد کر رہا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں
بلکہ آپ کو یہ دیکھنا چا ہے کہ آپ کے شوہر انسانی ہمدردی رکھتے ہیں جو ایک اچھا
فعل ہے۔اگر شوہر کوئی پرائیوٹ دراز یا ڈائری رکھتا یا اپنے فون ، سوشل میڈیا
اکاؤنٹ اور ای میل کا پاسوورڈ اپنے تک محدود رکھتا ہے اور آپ کو بھی ایسا کرنے
دیتا ہے تو یہ کوئی پیشاورانہ مجبوری ہو سکتی اور اسے آپ کی ذاتی پرائیوسی
پر بھی کوئی اعتراض نہیں تو وہ ایک سمجھدار با اخلاق انسان ہے اور پرائیویسی شیر
کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ سے اپنی عشق کی داستا ن چھپا رہا ہے بلکہ بہت
سے مرد اپنی چیزوں کو لے کر اسی طرح کی احتیاط بر تتے ہیں اور اسے محفوظ رکھنے کے
لئے ایسی دراز یا ڈائری استعما ل کرتے ہیں۔بہرحال اگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی
کچھ بات ایسی ہے جو آپ کو کسی تشویش میں مبتلا کئے ہوئے ہے کیونکہ شائد آپ جو
کچھ شوہر سے چھپا کر رکھتی ہیں آپ کو لگتا ہے ویسے ہی کچھ چھپا کر
رکھتا ہے تو اس کا بہترین حل اسے مل کر بیٹھ کر بات کر نے سے نکالیں ،غصے یا چیخنے
چلانے یا اپنی مر ضی سے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے گریز کریں اور فتنہ انگیزی ،
چغلی اور اولاد کے ذہن گمراہ کرنے اور باپ جیسے رشتے کے
لئے کے لئے نفرت پیدا کرنے کی بجاے یہ بات ذہن نشین کر لیں گے گھر کا
ماحول زہر آلود کرنے کی ذمہ دار آپ ہو سکتی ہیں کیونکہ بہت سی چیزوں کو ہم
جس نظریے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ ویسی ہوتی نہیں بلکہ اس بلکل مختلف انداز رکھتی
ہیں تو بہتر یہی ہے کہ سامنے والے کا انداز اور نظریہ جاننے کی کوشش کی جائے اس کے
بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جا ئے۔
یہ تمام باتیں اس رشتے کو جس نازک مقام پر لے جاتی ہیں وہاں شوہر اور بیوی یا ان میں سے کوئی ایک نہ چا ہتے ہوئے بھی لازمی طور پر علیحدگی اختیار کر نے کے خواہش مند ہو جاتا اور اگر ایسے میں کوئی گمراہ کن مشورہ مزید مل جاے تو ایسا ہو بھی جاتا ہے جو ایک ایسا عمل بن جا تا ہے جس کے بعد حالات بد سے بد تر بنتے چلے جا تے ہیں- ابتد امیں تو ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ سب کو خوشی اور اطمینان دے گا لیکن در حقیقت یہ فیصلہ سب کا سکھ اور چین ختم کر نے کا سبب بن جا تا ہے جہاں شوہر یہ سوچ ر ہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس بیوی سے جان چھڑا کر کسی اور اچھی بیوی کا انتخاب کر ے گا وہاں اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ وہ عورت میں ایسی خوبیاں تلاش کر تا ہے جو اسے کیا کسی کو بھی مشکل سے ہی ملتی ہیں جبکہ عورت بعض اوقات ساری زندگی اکیلے ہی گذارنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور بچے ایک تکلیف دہ صورت حال کا شکار ہو جا تے ہیں نہ ہی ان کی درست پرورش ہو پا تی ہے نہ ہی وہ ذہنی سکون کے مالک ہو تے ہیں بلکہ اس فیصلے سے ہر ایک کو شدید نقصان اٹھا نا پڑتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ لوگ بے نقص اور پرفکٹ نہیں ہوتے مگر رشتے بے نقص ہو سکتے ہیں
کسی بھی مشکل کا حل نکالنے کے لئے اس سے مشکل راستہ اختیار کر
نا کہیں کی عقل مندی نہیں بلکہ اس مشکل کو کسی آسان اور مذاکراتی طر یقے سے حل کر
نا ہی کسی بھی رشتے کی خوبصورتی اور مضبوطی کو واضح کر تا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ
اس مسئلے کا حل بھی نکالنے کے لئے خطر ناک
حد تک نہ جا یا
جا ئے جہاں پہنچنے پر ہر ایک ہی اپنی
زندگی مشکل میں ڈالتا ہے بلکہ اپنے سے وابستہ لوگوں کو بھی ایک کڑے امتحان میں ڈال
دیتا ہے۔ اس لئے اس کے ھل کا جو بے نقص طریقہ الله نے سکھایا ہے اس پر عمل کیا جاے
اور دونوں کے خاندان سے ایک ایک با شعور عقلمند اور ہمدرد انسان مل بیٹھ کر فیصلہ کریں
یہ دونوں لوگ ضروری نہیں کے خاندان سے ہی ہوں اگر خاندان میں کوئی ایسا دکھائی نہ بھی دے تو کوئی باشعور
دیندار مستند شخص منتخب ہو سکتا ہے مگر پہلی ترجیح دونوں میاں بیوی کے
خاندانوں کو ہی حاصل ہے جیسا کے حکم ہے
بہرکیف حقیقت تو یہی ہے کہ جو عورت در حقیقت نیکی کو اخیتار کرنے اور پوری طرح عمل پیرا ہونے سے محروم ہو اپنے شوہر اور گھر سے محبت رکھتی بھی ہے تو وہ ہی ایسی باتوں میں اور ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی محبت ہر وقت اس خطر ے میں خود کو محسوس کر تی ہے کہ کہیں وہ سب اس سے چھن نہ جائے جس کو حاصل کرنے کے لئے اس نے اتنی جد و جہد کی اتنے پاپڑ بیلے- دراصل ایسی عورتوں کی جد و جہد ایک اچھے جیون ساتھی سے زیادہ اس سے وابستہ چیزوں اور جگہوں اور لوگوں کے لئے ہوتی ہے
تو ضرورت اس بات کی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی کمزوری کو سمجھتے
ہوئے انہیں پیار اور محبت سے سمجھائے ان پر غصہ کر نے یا ان کی باتوں پر چڑنے کے
بجائے ان کو یقین دلائیں کہ ان کی زندگی میں اگر کسی کی اہمیت ہے تو وہ صرف وہی ہے
جو بہت محبت کرتی ہے اور گھر کا خیال رکھتی ہے ایسی باتیں نہ صرف بیوی کو اس بیماری
سے نکالنے میں بلکہ گھر کے ماحول کو بہتر بنانے اور رشتے کو مضبوط کر نے میں اپنا
ایک موثر کردار ادا کر تی ہیں۔شوہروں کو چا ہے کہ وہ ایسی غیر محفوظ سوچ کی حامل بیویوں
کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو ہر بات شیئر کریں، انہیں اپنے خطوط پڑھائیں ،انہیں اپنی
درازیں چیک کر نے کے مواقع فراہم کریں،انہیں کسی بھی معاملے پر آزادانہ بات اور
اظہار کر نے کا حق دیں، انہیں ہر مسئلے اور معاملے سے واقف رکھیں، آفس میں بے جا
وقت گذاری سے پر ہیز کریں اپنی بیویوں کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔انہیں سمجھیں
اور انہیں پیار سے سمجھانے کی کوشش کر یں کیونکہ کسی بھی رشتے میں اس چیز کی بہت
اہمیت ہوتی ہے۔جب شوہر ان باتوں کو اہمیت
نہیں دیتے تو بیویوں میں یہ شک کر نے کی عادت
پیدا ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے نقصان دہ فیصلے کی طرف چلی جاتی ہے جس سے ایک خاندان
اور گھر تباہ ہو جا تا ہے۔
[ماخوذ - TRT اردو
]
No comments:
Post a Comment