Sunday, 7 July 2019

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

انسانی تعلقات میں اور رشتوں میں یہ بات اکثر بھلا دی جاتی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی پسند اور نا پسند کا ادب کرنا اور عزت دینا ضروری ہے - اگر ہم اس شرط پر کوئی تعلق رکھنا چاہیں گے یا پسند کریں گے کے جس کسی عادت,  چیز, کام یا تعلق کو ہم پسند کرتےہیں, ہمارا قریبی اور عزیز تعلق بھی وہ سب پسند کرے اور ویسے ہی لوگوں سے تعلق رکھے جنکو ہم پسند کرتے ہیں,  تو ہمیں بھی جواباً ویسا کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا ہمیں بھی اسی طرح وہ سب کام, چیزیں, اور لوگ اپنے عزیز یا محبوب کی خاطر اختیار یا ترک کرنے ہونگے  جو اس کی پسند اور نا پسند کے مطابق ہیں 

کیا ہمارے  لئے کوئی تعلق اتنا عزیز ہوسکتا ہے جس قائم رکھنے کی خاطر  ہم ہنسی خوشی اپنے سارے اھم تعلقات چھوڑنے کو تیار ہو جائیں ؟ اپنی ہر عادت ہر کام ہروہ  چیز چھوڑ دیں جو اسے پسند نہیں ؟

کیا کسی کو اتنا بلند مرتبہ دینا ہمارے بس میں ہے ؟ ہم یہ تو ضرور چاہتے ہیں کے ہم سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی انسان ہر اس چیز کو پسند کرے ہر وہ کام سراہے ہر اس شخص کی عزت  کرے اور اہمیت دے جسے ہم چاہتے ہیں اور جیسے ہم چاہتے مگر کیا اسی طرح کیا ہم ہر وہ کام ہر وہ چیز ہر وہ شخص اسی طرح عزیز رکھ سکتے ہیں , پسند کرسکتے ہیں جیسے وہ سخص عزیز رکھتا ہے جس سے ہمیں قربت ، وابستگی یا محبت کا دعویٰ ہے ؟

میرے خیال سے یہی محبت ہے جس میں عزت وابستگی اور قربت سب شامل ہے اگر میں وہی سب بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عزیز کے لئے خیال کروں کے جیسے مجھے کچھ پسند ہے- اسی طرح اسے بھی کچھ پسند ہو سکتا ہے جو ضروری تو نہیں کے مجھے بھی پسند ہو بلکل ویسے ہی کچھ مجھے اگر نا پسند  ہے اور برداشت نہیں کر سکتا تو اسی طرح میرے عزیز کو بھی مجھ میں کچھ ناپسند ہو سکتا ہے- اور یہی تو اصل میں حکم ہے کہ 

تیرا ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک  تو اپنے بھائی کے لئے (جس کے بھائی ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے) وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (اوراسی طرح  نا پسند کرے جیسے اپنے لئے نا پسند کرتا ہے ) - وہ قرابت دار وہ عزیز رشتہ دار کیسے ہوا جب تو اس سے تو امید رکھے کے وہ تیری پسند اور نا پسند کی عزت کرے مگر تو اس کی پسند اور نا پسند کی کبھی عزت  نا کرے اور ہمیشہ اس پر اپنی معمولی معمولی پسند اور نا پسند بھی مسلط کرتا رہے صرف اپنے احساس برتری کی تسکین کی خاطر دوسرے کو کم علم نا سمجھ ثابت کرتا رہے 

اس سے  تو امید رکھے کے وہ خوشی خوشی وہ سب ترک کردے جو تجھے پسند نہیں مگر تو کچھ بھی ایسا ترک نہیں کرتا جو اسے پسند نہیں اس سے پوچھتا تک نہیں نا ہی خیال رکھتا ہے کے میں کچھ ایسا تو نہیں کرتا یا مجھ میں کچھ ایسا تو نہیں جو میرے عزیز کو پسند نہیں - پھر اس کا تیرے دل میں کیا رتبہ ؟ کیا قدر اور کیا عزت ہے؟

اب آپ یہ بھی کہیں گے کے ہو سکتا ہے کے وہ چیز یا تعلق حرام اور نقصان دہ ہو جو آپ کے کسی عزیز نے اختیار کر رکھا ہواور اس کا ترک کروانا  لازمی ہو
تو پھر کیا کریں ؟’

اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کا واقعی کوئی عزیز آپ کے علم میں آے بغیر 
ایسی عادت یا تعلق میں مبتلہ ہو سکے جو نا جائز یا حرام ہو اور اگر ایسا ہوگیا ہےاور آپ اس کے تدارک میں ناکام رہے ہیں تو یہ آپ کی کمزوری بلکہ مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے اور آپ کے  ذوق تعلقات کو بھی ظاہر کرتا ہے  

 اس بات کا فیصلہ کسی  مستند ذریعے سے ہونا لازمی ہے کے اول تو واقعی کچھ حرام اور نقصان دہ ہے بھی کے نہیں؟ اور اگر ہے تو اس کی اصلاح کے لئے کیا کرنا ضروری ہے؟ کیونکہ اکثر ہم خود ہے منصف خود ہے معالج اور مصلح بن جاتے ہیں اور صورت حال انتہائی بگڑنے کے بعد ہی کسی مستند مسیحا کا رخ کرتے ہیں 

اپنے تعلقات اور رشتوں کی عزت کرنی چاہیے اور ان رشتوں وابستگیوں اور تعلقات کی غیرت ہونی چاہیے کے انکےبارے  میں کوئی بری بات نا کہ سکے - اپنے رشتوں اور تعلقات کو قابل فخر و عزت بنا نا ہمارا کام ہے اسی میں ہماری اپنی عزت اور وقار ہے  نا کہ ان کا تمسخر اور تماشہ بنا ڈالنے میں جس سے لوگ یہ سوچیں کے تم نے آخر ایسے تعلق رکھا ا ہوا ہی کیوں ہے جو اتنا تکلیف دہ ہے کے ہر وقت اس کا رونا روتے نظر اتے ہو 

No comments: