Tuesday 16 July 2019

کسی کا دل جیتنے کے لیے پہلے دل ہارنا پڑتا ہے

کہتے ہیں جو پورے دل سے چاہتا ہے وہ بہت ہی مشکل سے ملتا ہے اور اگر کوئی ایسا ہے تو وہی دنیا میں سب سے زیادہ حسین شخص ہے اسکا ہاتھ تھام لو نہیں تو  کیا پتا وہ پھر ملا یا نا ملے  ۔ دلوں پر حکمرانی کرنا ہی اصل کامیابی وکامرانی ہے۔ دل جیتنے کا فن جس کو آگیا سمجھو دنیا اس کی دیوانی ہوگئی۔ اور جو دل جیتنے کے فن سے ناآشنا ہوتا ہے وہ کبھی بھی گوہر مقصود سے ہمکنار نہیں ہو سکتا ہے۔

  تاریخ شاہد ہے کہ بڑے جابر وظالم حاکموں نے زور بازو وقوت لشکر اور ظلم واستبداد کے ذریعہ لوگوں کے جسموں پر اور ظاہری نظلم ونسق پر حکومت تو قائم کرلی مگر جونہی ان کی قوت میں کمی آئی ان کے ستارہ اقبال کو گہن لگ گیا۔ جب بھی قوم کو ان کے ضعف کا احساس ہوا ان کا تختہ پلٹ دیا۔ اسباب صاف ظاہر ہیں کہ قوم بحالت مجبوری ان کی حکومت وحکمرانی برداشت کررہی تھی اور ان کے ظلم واستبداد نے لوگوں کی زبانوں پر مہر لگارکھی تھی۔ لوگوں کے دلوں میں ان حاکموں کے تئیں ذرہ برابر بھی محبت ونرمی کا گوشہ نہیں تھا اسی لیے کہا جاتا ہے کے خوف سے حکمرانی کرنا کوئی حکمرانی نہیں 

مگر حکومت کرنے کی ایک اورغلیظ قسم چالاکی سے حکومت کرنے کی بھی ہوتی ہے جس میں اپنا آپ بہت ہی اچھا بہت ہی پرکشش اور فرشتہ صفت ظاہر کر کے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لینے کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ان سے کام نکلوانا اور جیسے چاہنا ویسے ہی الو بنا کر رکھنا ہوتا ہے


یہ طریقہ بہت عرصے سے مغربی طرز حکومت اور نظام میں رائج ہے جس کےبارے میں کہا گیا ہے کے یہ دیکھنے میں بلیوں اور دیگر گوشت خور جانوروں کی طرح نظر آتے ہیں جو گھر میں بہت پالے جاتے ہیں اور ان کے پنجےعام حالت میں بہت نرم اور بے ضرر نظر آتے ہیں مگر کبھی اگر یہ انہی پنجوں میں سے اپنے حملہ آور ہونے والے خطرناک نوکیلے ناخن باہر نکال لیں تو انکی اصل خوفناک شکل سامنے آتی ہے

اسی طرح ان مغربی اقوام کا حال ہے جو اوپر سے بہت خوبصورت نرم خو ہمدرد حساس اور ہر دل عزیز نظر آتے ہیں مگر جب معاملہ ان کے اپنے مفادات پر آنچ آنے کا ہو تو یہ کسی قسم کی سفاکی اور درندگی سے نہیں چوکتے نا لحاظ کرتے کرتے ہیں
یہی سب کچھ تاریخ سے ثابت ہے - ایسٹ انڈیا کمپنی ہو یا دنیا میں بہت ساری اور جگہوں پر اسی قسم کے تاجروں کے بھیس میں چھپے ہوے غاصب اور لٹیرے جو کسی بھی قدرتی اور معدنی ذخائر سے مالامال ملک میں پہنچ کر پہلے وہاں کے لوگوں کو اپنی خوبصورتی نفاست اور بہترین طرز زندگی سے متاثر کرتے رہے اور لوگوں کو اپنی مادی ترقی اور سمجھداری سے مرعوب کر کے دھیرے دھیرے با اثر افراد کو اپنا گرویدہ بنا کرنا سمجھ عوام کو گرویدہ بنا لیا ، (جن میں سے اکثر آج تک ویسے کے ویسے ہی ہیں) اس ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور طاقتور بن جانے کے بعد ان سب مخالفین کو نیست نابود کر دیا جو ان کی اصلیت سمجھ گئے تھے کہ یہ صرف انکے قدرتی اور معدنی ذخائر پر قبضہ کا منصوبہ ہے جو مغربی ممالک آج بھی تقریباً ناپید ہیں اور ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی

یہ نا سمجھ عوام آج بھی یہ خیال کرتی ہے کے نو آبادیاتی نظام میں بہت ترقی ہوئی جو دراصل صرف اپنی آسائش اور قدرتی و معدنی ذخائر تک پہنچ کو آسان بنانے کے لئے عمل میں آئ اس کا اعتراف انہی نو آباد کاروں نے بعد میں لکھی جانے والی مغربی محققوں کی کتابوں میں کیا ہے جن پر بعد میں فلمیں بھی بنی
آج بھی ان مغربی طاقتوں سے مرعوب لوگ جو انکی طرز معاشرت کی اندھی تقلید میں فخریہ طور پر لگے ہوے ہیں انہی کی طرح مادی ترقی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو ظاہری نمود نمائش خوبصورتی اور آسائش کا جھانسا دے کر پہلے انکا دل جیتنے میں لگے رہتے ہیں اور اکثر سادہ لوح افراد انکی بظاھر پیش کردہ آسائشوں اعلیٰ کارکردگی قابلیت اور ہمدردیوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور ان کے گرویدہ ہوکر اندھی تقلید اور حمایت کرنے لگتے ہیں یہ جانے بغیر کے ان کا مقصد بھی ان ذخائر اور صلاحیتوں پر قبضہ کرنا ہے
جب تک پورے دل سے سچ مچ ہار نہیں جاتے دل جیت لینا ناممکن ہے- وقتی طور پر دکھاوا اور اداکاری یا پھر ظاہری خوبصورتی , پیسہ اور وقتی چاپلوسی والی خدمت اور محنت کام آ تو جاتی ہے مگر بعد میں جب وہ مطلوبہ ہدف یہ سب چھوڑ کر بہتر آسائشیں یا واقعی اصلی جذبے تلاش کر لیتا ہے اور ہاتھ سے دور نکل جاتا ہے, جہاں اسے بہترخدمت زیادہ پیسہ اور چاپلوسی ملنے لگے تو ساری کوششیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ہاتھ ملتے رہ جانے کے بعد صرف کھسیانی بلی کھمبا نوچتی ہے
مگر اصل حکومت ہار جانے میں ہوتی ہے جیتنے میں نہیں دل ہار کر دل جیتا جاتا ہے جو ان مغرب زدہ ذہنوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا وہ تو بس اس بات پر پوری تحقیق کرتے ہیں کے فلاں شخص کو ایسا کھانا پسند ہے ایسا لباس اور ایسا رہن سہن تو بس ویسے ہی نظر آؤ اور اسے دکھاؤ کہ یہ دیکھو میری نفاست میرا رہن سہن میرا بناؤ سنگھار جس سے مطلوبہ نتائج نکل آئیں تو بس کام بن گیا -
دائمی حکومت جو دلوں پر قائم رہتی ہے اس کے لئے اپنا فائدہ نہی دیکھا جاتا دل جو کرتا, جو کہتا اور چاہتا ہے, وہ اس کا کر دینا ہوتا ہے جس کو اپنا بنانا ہوتا ہے- اپنی انا اپنی مرضی اور اپنی تمنائیں سب کی سب کچھ اس کے حوالے کرنی ہوتی ہیں بغیر کسی لالچ اور امید کے بس اس کا ہو جانا پڑتا ہے خوشی خوشی زبردستی نہیں اوپر اوپر سے نہیں جو بس دکھاوے کے لئے ہو
اور اپنی لا حاصل نہ پائیدار وفاداری خلوص اور دکھاوے کے جذبات کو اصلی اور خالص ثابت کرنے میں لگ جاتی ہے اور دوسرے کی بیوفائی کم ظرفی اور زیادتی کا رونا ساری عمر رونے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا
کیونکہ دکھاوا تو اپنی اصلیت ظاہر کر دیتا ہے چاہے جتنا بھی چھپاؤ جتنا بھی انکار کرو بہانے کرو یا حقیقت کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرو اور سمجھو کے بیوقوف بنا کر کام چل جاے گا
سواے اس کےکہ ایک اور بیوقوف پھانس لو اور اسے بھی ان ہی ظاہری ہتھکنڈوں کی مدد سے اپنا مداح اور گرویدہ کر کے اپنی معصومیت اور مظلومیت کا رونا روتے ہوے


No comments: