Monday 1 July 2019

قربانی

ایک مشہور دانشور کا قول ہے: 

قربانی کمزور آدمیوں کا فعل نہیں ہوتا۔ یہ صرف بہادروں کا ہی شیوہ ہو سکتا ہے۔ 

یہ اتنا آسان عمل نہیں ہوتا جیسے اگر تمہیں لگی لگائی پکّی نوکری چھوڑنی پڑ جاے صرف اس لئے کے وہاں اپنے عقائد پر کھل کے عمل نہیں ہو سکتا یا پھر شہر, یہاں تک کے ملک چھوڑنا پڑے کیونکے وہاں تمہیں اپنے عقائد پر عمل کرنے کی آزادی نہیں اس لئے نہیں کے اس ملک میں تمہاری مرضی کا ذریعہ معاش میسر نہیں 

اسی طرح ایسی قربانی بھی کرنی پڑتی ہے کہ جب قریبی رشتہ دارتمہارے زندہ رہنے کے اصولوں کو قبول نہ کریں اور اپنی بدعات اور رسومات سے چمٹے رہیں اور عقائد کو بھی اپنی مرضی سے اپنے حق میں توڑ مروڑ کر ان کا مطلب اپنے حق میں نکالتے  ہوں  بغیر کسی مستند دینی عالم سے پوچھے ہوے یہاں تک کے مستند دینی سخصیت کی بات کا بھی اپنا مطلب ایجاد کریں 

اور تم سٹپٹا کر رہ جاتے ہو ان مسخ شدہ مطالب میں خود کو گھرا ہوا مجبور اور لاچار پا کر کچھ بھی نہ کر پانے کے لائق 

یہ نام نہاد عقائد رکھنے والے جو صرف اپنی مرضی کے مطابق عقائد پر عمل کرتے ہیں اور جو عقائد ان کو سوٹ نہیں کرتے یا تو سرے سے ان پر عمل نہیں کرتے یا پھر ان کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور اتنے وثوق اور شدت سے اپنے مسخ عقائد کی وکالت کرتے ہیں کے معصوم کم علم ذہنوں کو لگتا ہے یہی سچ ہےکیونکہ اس طرح کرنے سے ایک ساتھ گمراہی اور بیہودگی بھی جاری رہتی ہے اور نیک نامی بھی قائم رہتی ہے-  جب کسی دینی محفل میں جانا ہو تو نیکی کا لبادہ اوڑھ لو اور بڑی بڑی باتیں کرو اور جب دنیاوی محفلیں ہو تو خوب آزاد خیالی کے ساتھ خود کو  سب سے زیادہ اڈوانس , ماڈرن , با خبر اوراپ ڈو ڈیٹ  ثابت کرو دین اور دنیا دونوں میں لاثانی اور بےمثال بنو اور اسی کی ترویج اور تبلیغ زور و شور سے کرو  

ایسے خود ساختہ عقائد بلکہ مسخ شدہ عقائد کے ساتھ ساتھ ان کا پسندیدہ مشغلہ جس پر شدید وعید بھی آئ ہے وہ یہ ہے کہ اپنی پسند کے احکامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور جو احکامات پسند نہیں ان کو چھپا لیتے ہیں اور ذکر تک نہیں کرتے 

سب سے آسان پہچان ایسے لوگوں کی یہ ہوتی ہے کہ یہ علم ودانش کی محفلوں سے دور بھاگتے ہیں کبھی کسی علمی مذاکرے میں حصّہ نہیں لیتےنا کبھی خود سے اپنا کوئی خیال یا تجزیہ  تحریر کرتے ہیں نا ہی کسی سے اصلاح کروانے کی کوشش کرتے ہیں نہ کبھی کوئی علمی اور ادبی  موضوع زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مزید تفصیلات اور خیالات کا اظہار ہو سکے خاص توڑ پر کسی علمی شخصیت کی موجودگی میں تو ہرگز نہیں - جہاں کہیں کسی عالم سے واسطہ پڑنے کا اندیشہ بھی ہو وہاں سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ ان کا کام تو صرف منافرت کج بحثی اور کھوکھلی سنی سنائی بات پر اظہار خیال کرنا غیبت کرنا اور اعتراض کرنا ہوتا ہے 

ایسی صورت میں قربانی دینی ہوتی ہے یا تو اپنے اصولوں اور احساسات کو چھوڑ دو جو اصل عقائد سے بندھے ہوے ہیں یا پھر ان نام نہاد پیارے رشتہ داروں کو- کیونکہ رشتہ دار تو وہی ہوتا ہے جو ہو بہو تمھارے عقائد رکھتا ہو تمہارے دین یعنی زندہ رہنے کے طریقے پر عمل پیرا ہو 

ورنہ پھر غزوات میں صحابہ کرام اپنے خونی رشتہ داروں اور قربت داروں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل نہ کرتے 


No comments: