Monday 8 July 2019

مرد کے رتبہ کی غرض و غایت - قرآن و حدیث کی روشنی میں

پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ مرد وعورت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا ہے، مرد کو جہاں زیادہ جسمانی قوت اور طاقت سے نوازا ہے، وہیں عورت کو رحم دل بنایا ہے۔ جہاں مرد کو اپنے جذبات پر قابو رکھ کر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے، وہیں عورت کو حیض، حمل، ولادت، نفاس اور بچے کو دودھ پلانے کے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور فیصلہ کرنے کے معاملے میں جانبدارانہ رویہ رکھنے پر انہی وجوہات کی وجہ مجبور  رہتی ہے جو سربراہ بننے کے لئے ایک ناگزیر اور اشد ضرورت ہے ۔ نیز دنیا کے وجود سے لے کر آج تک عملی زندگی میں اور تمام مذاہب میں مردکو عورت پر فوقیت دی گئی ہے، اور اس حقیقت کا انکار کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مستشرقین اسلامی تعلیمات کے خلاف تو اپنا قلم اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں لیکن اپنی مذہبی کتابوں کی تعلیمات کو نظر انداز کرکے مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کئے جانے والے مظالم سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ حالانکہ عصر حاضر میں الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں کہ مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔


مرد وعورت میں تخلیقی وجسمانی وعقلی فرق کی وجہ سے شریعت  نے دونوں کے مسائل میں فرق رکھا ہے۔ یقیناًدونوں میاں بیوی بشریت وانسانیت میں برابر ہیں اور دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں، لیکن شریعت  نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مرد کو فوقیت دی ہے۔ غرضیکہ مرد عورت کا محافظ ونگراں ہے اور مرد کو سربراہی حاصل ہے، ہاں دونوں میاں بیوی میں اپنی اپنی جگہ ایک مستقل حیثیت اور مقام رکھتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدو یعنی ان کے بستر کو الگ کردو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو)انہیں مارسکتے ہو۔(سورۃ النساء ۳۴) اس آیت میں خالق کائنات نے مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت دینے کی جو   وجہیں ذکر فرمائی ہیں ان میں کہیں یہ وجہ بیان نہیں فرمائی کے اگر مرد قوام یا خرچ کرنے والا نہیں تو حاکم نہیں رہتا اور نہ ہی یہ فرمایا ہے کے اگر مرد عورت کی مرضی کے مطابق خرچ کا انتظام نہ کرے تو عورت کو چاہیے کے وہ خود خرچ کا انتظام کرنے نکل پڑے بجاے اس کے کہ مرد کے لئے ایسے حالات میسر کرے جن سے وہ گھر کا خرچ اٹھانے میں آسانی محسوس کرے خود مرد بننے کی کوشش میں لگ جاے


اللہ تعالیٰ  نے خود مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے، لہٰذا  اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ پر راضی رہنا چاہئے۔ غرضیکہ مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت کی پہلی وجہ وہبی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے، وہ جس کو چاہے عطا کرے۔ اور اگر عورت اس بات میں مشکل اور تنگی محسوس کرے تو اسے الله نے علیحدگی اختیار کرنے کا حق دیا ہے- اگر یہ بھی کرنے سے قاصر ہو تو صبر اور دعا سے کام لینے کا حکم ہے بجاے اس کے شوہر کے لئے مزید تکلیف کا موجب بنے اور مسلسل عیب تراشی، بد زبانی، کج بحثی ، لگائی بجھائی اور شوہر کی غیبت اور چغلی سے گھر کے ماحول کو ایسا زہر آلود کردے کے شوہر کے لئے کچھ بھی ڈھنگ کرنا دو بھر ہو جاے


شریعت اسلامیہ میں لڑکی کی شادی سے قبل اس کے تمام اخراجات والد کے ذمہ رکھے ہیں، اور شادی کے بعد شوہر کے ذمہ رکھے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کے کھانے، پینے، رہائش اور لباس وغیرہ کے تمام اخراجات برداشت کرے، جیساکہ سورۃ البقرہ ۲۲۳ اور سورۃ الطلاق ۷ میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز حضور اکرمﷺ نے حضرت ہند بنت عتبہؓ سے فرمایا تھا،جب انہوں نے اپنے شوہر حضرت ابوسفیانؓ کے متعلق شکایت کی تھی کہ وہ بخیل ہیں اور وہ ان کے اور بچہ کے اخراجات مکمل طور پر نہیں اٹھاتے، ’’تم اپنے شوہر کے مال میں سے معروف طریقہ سے اتنا مال لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچہ کے لئے کافی ہوجائے۔ (بخاری ۔ کتاب النفقات ۔ باب اذا لم ینفق الرجل فللمراۃ ان تاخذ۔۔۔۔۔) یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اخراجات اٹھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ جیسے اخراجات بیوی بچے چاہتے ہوں ویسے ہی اخراجات اٹھاے جائیں ورنہ وہ شوہر اور والد کی اطاعت کے پابند نہیں رہتے اخراجات حثیت کے مطابق اسلامی اسصولوں کے تحت اٹھنے کا حکم ہے 


جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ہاں مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت ہے۔(سورۃ البقرۃ ۲۲۸) یعنی دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہونے کے باوجود زندگی کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو امیر اور نگراں بنایا ہے اسی لیے اس نے کبھی کسی عورت کو آج تک نبوّت ، خلافت یہاں تک کے امیر جماعت یا صدارت حلقہ کے انتخاب میں بھی شمولیت کا حق نہیں دیا کیونکہ عورت درست فیصلہ کرنے کے معاملے میں جانبدار ہونے سے نہیں رہ سکتی اور ایسا اسکی اوپر بیان کردہ  فطری کمزوریوں کیا وجہ سے ہے جو ہر عورت کی نسوانیت اور صنف نازک ہونے کی پہچان ہے ۔ اس لحاظ سے مرد کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔


اس موضوع سے متعلق دو آیات قرآنیہ کا ذکر کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺکے چند ایسے ارشادات بھی پیش کردوں جن سے ان مذکورہ بالا آیات کی مزید تفسیر ہوتی ہے۔۔۔


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ (مُسند احمد


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی وخوش ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی حق الزوج) ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناًعورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی حق الزوج) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورت کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔۔


سجدہ اطاعت کی انتہائی حالت کا نام ہے اور یہاں بھی کسی قسم کی شرط نہیں رکھی گئی کہ مرد ایسا نا کرے تو اطاعت لازم نہیں یا ویسا کرتا ہو تو اطاعت لازم نہیں صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ شرعی حدود سے باہر کوئی حکم دیا جاے تو اس کی اطاعت  لازم نہیں 


ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپﷺ سے ایک سوال کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں کو دیا ہے، چنانچہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اُس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہوجاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے، (جیساکہ سورۃ آل عمران آیت ۱۶۹ میں مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں، ہمارے لئے کیا اجر ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جن عورتو ں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لئے اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔ (بزاز ، طبرانی) ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لئے (نفلی) روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ بخاری ومسلم


یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کل کی عورت مرد کی جگہ کمانے اور خرچ کا انتظام کرنے تو  نکل کھڑی ہوتی ہے مگر جہاد کرنے کا نام نہیں لیتی دینی کاموں میں خطرات مول لینے کو تیار نہی ہوتی کہ یہ تو مردوں کا کام ہے 


نبوت ورسالت اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی بھی بندہ کو دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ومقام ومرتبہ ہے۔ انسان اپنی کوشش اورجد وجہد سے اس مرتبہ کو حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ مقام صرف اور صرف اللہ کی عطا پر منحصر ہے۔ اور یہ مقام شوہر ہونے سے بدرجہا افضل اور برتر ہے جس میں کہیں بھی صاحب حیثیت یا خرچ کرنے کے قابل ہونے کی شرط نہیں نا ہی خلیفہ بننے کے لئے بہت مالدار ہونے کی شرط ہے- اسی طرح امام چاہے نماز کا ہو یا دعا کروانی ہو ہر جگہ مرد ہی قیادت کے فرائض انجام دیتا ہے چاہے عمر میں اور تجربہ میں کتنا ہی چھوٹا ہو اس کا رتبہ عورت سے زیادہ ہی ہوتا ہے-کیا اگر کبھی گھر میں سب مرد عمر میں چھوٹے یہاں تک کے نا بالغ ہوں مگر نماز کیا امامت جانتے ہوں توعورت کو نماز کی امامت کا حق ہوتا ہے ؟


دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اللہ تعالیٰ کا یہ نظام رہا ہے کہ نبوت ورسالت اور خلافت  سے صرف مردوں کو ہی سرفراز کیا گیا ہے، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کسی اور کو نہیں، آدمیوں ہی کو رسول بناکر بھیجا تھا، جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے۔ (سورۃ الانبیاء ۷) اسی طرح فرمان الہٰی ہے: اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھیجے وہ سب مختلف بستیوں میں بسنے والے مرد ہی تھے، جن پر ہم وحی بھیجتے تھے۔ (سورۃ یوسف ۱۰۹) ۔۔۔ نیز قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی عورت کے نبی ہونے کا ذکر موجود نہیں ہے۔ حضرت مریم  کے متعلق بعض حضرات نے اختلاف کیا ہے، لیکن ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کے جمہور علماء ومفسرین ومحدثین مذکورہ بالا آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ کی روشنی میں یہی فرماتے ہیں کہ کسی بھی صنف نازک کو نبوت ورسالت کی ذمہ داری نہیں دی گئی ۔عورت کی جسمانی وعقلی تخلیق اللہ تعالیٰ نے ایسی کی ہے کہ وہ نبوت ورسالت کی ذمہ داری کو انجام نہیں دے سکتی۔ اور نا ہی کسی سربراہ قائد رہنما صدر یا خلیفہ کے اتنخاب میں حصہ لے سکتی ہے 


مرد کا ایک سے زیادہ شادی کرنا: مرد بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرسکتا ہے، جبکہ عورت ایک وقت میں ایک ہی مرد کے نکاح میں رہ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلیا کرو جو تمہیں پسند آئیں، دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے۔ (سورۃ النساء ۳) مرد کے لئے تعدد ازواج کے جواز کی متعدد وجوہات بھی ہیں لیکن بنیادی طور پر مردو عورت کی تخلیق میں فرق ، نیز خالق کائنات کا فیصلہ ہے جو ہمیں خوشی خوشی تسلیم کرنا چاہئے۔


مرد اپنی بیوی کے بغیر جب چاہے سفر کرسکتا ہے، لیکن شریعت اسلامیہ نے عورت کے سفر کے لئے شوہر یا کسی دوسرے محرم کا ساتھ ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت، جو اللہ تعالیٰ اور آخر ت پر ایمان رکھتی ہے، کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن کی مسافت کے سفر پر جائے۔ (بخاری ومسلم


یہاں یہ بات سمجھ لینا لازم ہے کہ اشد ضرورت اور بحالت مجبوری کے احکامات اور شرعی تشریحات کی روشنی میں سفر کی اجازت مل سکتی ہے جو ناگزیر حالات میں جائز ہے کیونکہ اسلام آسانی کا مذھب ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کے غیر ضروری حالات کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں کر لیا جاے اور یہودیوں کی طرح ہر حکم کا اپنا مطلب اور عمل کرنے کا اپنا طریقہ ایجاد کر لیا جاے  


عورتوں کے لئے پردہ کا حکم: سورۃا لنور ۳۱، سورۃ النور ۶۰، سورۃ الاحزاب ۵۹، سورۃ الاحزاب ۵۳ اور سورۃ الاحزاب ۳۳ نیز حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ عورت کا غیر محرم سے پردہ کرنا ضروی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے لئے ہاتھ، پیر اور چہرے کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، یعنی شوہرکے علاوہ کسی محرم وعورتوں کے سامنے ان تین اعضاء کے علاوہ کسی دوسرے عضو کا شرعی عذر کے بغیر کھولنا جائز نہیں ہے، جبکہ مرد کی ستر صرف ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے۔


اولاد کی نسبت باپ کی طرف:شرعی قوانین کے اعتبار سے اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یعنی اولاد کا خاندان وہ کہلائے گا جو باپ کا خاندان ہے


عورت کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے ایسی کی ہے کہ وہ عقل اور دین کے اعتبار سے مرد کے مقابلہ میں ناقص ہیں چنانچہ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقعہ پر عید گاہ تشریف لے گئے، وہاں آپ عورتوں کی طرف گئے اور فرمایا: اے عورتوں! صدقہ کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ عورتوں ہی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لعن طعن کثرت سے کرتی ہو۔ اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ باوجود عقل ا ور دین میں ناقص ہونے کے، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک زیرک اور تجربہ کار مرد کو دیوانہ بنادینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کیا: ہمارے دین اور عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا عورت کی شہادت مرد کی شہادت کے آدھے کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔ (بخاری ۔ باب ترک حائض الصوم) (وضاحت) بعض خواتین بعض مردوں سے عقل اور دین کے اعتبار سے بہتر ہوسکتی ہیں جیسے امہات المومنین میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی رضی اللہ عنہا ، اور متعدد صحابیات  رضی اللہ تعالی عنہن اسی نترہ حضرت مسیح معود علیہا؛سلام کے متبرک خاندان کی خواتین کس بھی مثالیں موجود ہیں اور اسلامی و جماعتی تاریخ میں بھی خواتین کی مثالیں موجود ہیں - لیکن شریعت کا فیصلہ عام مردوں اور عام خواتین کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔


ان مذکورہ بالا مسائل کے علاوہ متعدد مسائل میں شریعت اسلامیہ نے مرد وعورت کے درمیان فرق رکھا ہے، جن کو اختصار کے مد نظر ذکر نہیں کیا ہے، مثلاً مرد جہاد میں شرکت کرتے ہیں، جبکہ عورتوں پر جہاد فرض نہیں بلکہ ان کے لئے گھر میں رہنا (یعنی بچوں کی تعلیم وتربیت کرنا) اور حج کی ادائیگی کو جہاد قرار دیا گیا ۔ مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کریں جبکہ خواتین کے لئے گھر کو بہترین مسجد قرار دیا گیا


غرضیکہ میاں بیوی بشریت اور انسانیت میں برابری اور دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق کے باوجود جسمانی وعقلی تخلیق میں فرق کی وجہ سے خالق کائنات نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مردکو عورت کا سربراہ ونگراں متعین فرمایا ہے اور مرد کو عورت پر کسی نہ کسی حد تک فوقیت دی ہے۔

No comments: