Saturday 22 July 2017

ہم دیسی

ہم دیسی لوگ مرچیں پسند کرنے والے لوگ ہیں
مرچیں کھانا کھلانا اور  لگانا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے
چاہے جگت میں ہو شغل میں یا ہانڈی میں 

درد سے پیار تکلیف میں مزہ لینے والے عجیب سے لوگ
ہمیں درد بھرے گانے اچھے لگتے ہیں سوز و گداز  سے پیار ہے
سریلا پن اچھا لگتا ہے جو سوز کے بنا آ ہی نہیں سکتا
کبھی بارش میں اپنی چھتری دوسرے کو دے دیتے ہیں اور
 کبھی بلکل نۓ پیکٹ میں پرانی چیز بیچ دیتے ہیں

ہم ابھی زندگی کی  گاڑی چلانا سیکھ رہے ہیں تھوڑے اناڑی  ہیں اور تھوڑے کھلاڑی
رک رک کہ کبھی تیزی سے چلتی ہے ہماری زندگی کی گاڑی

بہت مزے سے زندگی کی اس رک رک کے چلتی گاڑی کو کبھی دھکّےتو کبھی جگاڑ سے چلاتے ہیں کیونکہ چلتی کا نام ہی تو گاڑی ہے

ہمیں سمجھنا آسان نہیں اور جتنا سمجھ آتی جاتی ہے اتنی حیرانگی ہوتی جاتی ہے عجیب ہیں ہم لوگ ہمیں دل سے سمجھنا پڑتا ہے دماغ بیچارہ تو بس ہمیں جاہل گنوار اور وحشی کہتا ہے

عجیب الٹی سیدھی سی یہ زندگی ہماری تھوڑی سچائی تھوڑی نادانی اور تھوڑی بےایمانی سے بنی ہے
آنسو اور کچھ سپنے دونوں ہی مل جاتے ہیں ایک ساتھ ہماری آنکھوں میں کیونکہ دونوں ہی اپنے ہیں
اور ان کے ساتھ تھوڑی مجبوریاں  ہیں اور من مانیاں بھی ہم ان کہ بنا بھی نہیں رہ سکتے- مجبور چاہے جتنے بھی ہوں من مانیاں سے نہیں رہ سکتے

ہم دیسی لوگ تو تو ..میں میں بھی بہت کرتے ہیں اور بہت سی باتیں ہم میں دیوانوں جیسی ہیں
ہمیں ویلیتی لوگ اسی لیے کبھی سممجھ نہیں سکے بیچارے ہم پر اپنی منطق آزماتے ہیں دماغ لڑاتے ہیں اور ہم تو دماغ اور
منطق سے باہر کہ لوگ ہیں

مگر کب تک؟ ہم دیسی بھی بہت ، شوق سے ویلیتی بنتے ہیں، پتہ نہیں کیوں دل کی چھوڑ کہ دماغ کی سننے لگتے ہیں ، اپنے سارے طور طریقے بدلتے ہیں کہیں سے دیسی نہ نظر آئیں مگر بن نہیں پاتے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کونے سے دیسی پنا کبھی نہ کبھی ضرور جھلک جاتا ہے جیسے وہ خواجہ سرا ہوتے ہیں نہ بس ویسے ہی

No comments: