Saturday 23 December 2017

عقیدت اور وابستگی کی باریک راہیں

آپ  کبھی فجر کی نماز کے بعد کسی ان پڑھ عام سے کپڑے پہنے کسی دیہاتی کو جسے وضو اور غسل کے فرائض سے بھی شاید پوری طرح واقفیت نہ ہو وہ جب نماز کے بعد قرآن پاک پڑھنےکے لیے کھولے گا تو قرآن پاک کا غلاف کھولنے سے پہلے دو بار اسے آنکھوں سے لگائے گا اور چومے گا ۔

اس کی اس پاک کتاب سے عقیدت اور محبت دیدنی ہوتی ہے ۔وہ قرآن پاک میں لکھی عربی کی آیات کی معانی سے واقف نہیں ہوتا لیکن وہ جس محبت سے اسے پڑھ رہا ہوتا ہے وہ قابلِ رشک ہوتا ہے ۔  

اشفاق احمد زاویہ ٣ لچھے والا صفہ ٢٩ 


بابا جی کی یہ بات پڑھ کے مجھے حضرت موسیٰؑ کا وہ واقعہ یاد آ گیا جو سب نے ہی سنا ہے 

حضرت موسیٰؑ ایک دن جنگل میں جا رہے تھے۔ آپؑ نے دیکھا کہ ایک بھیڑ بکریاں چرانے والا (گڈریا) دست بستہ کھڑا ہے اور بڑے شوق سے کہہ رہا ہے کہ اے خدا میرے پا س آ کر بیٹھ تاکہ میں تیری جوتی سیئوں، تیرے سر میں کنگھی کروں، تیری جوئیں ماروں، میں تیرے ہاتھ پائوں دھوئوں، تجھے نہلائوں، صاف ستھرے کپڑے پہنائوں اور تجھ پر قربان ہو ہو جائوں۔ اگر تو میرے پاس آئے تو میں اپنا کمبل بچھا کر تجھے اس پر بٹھائوں اور بکریوں کا تازہ تازہ گرم گرم دودھ تجھے پلائوں۔ اگر تو بیمار ہو جائے تو میں تیری اپنوں کی طرح خدمت کروں، تیرے ہاتھ چوموں، تیرے پائوں دبا کر تجھے میٹھی نیند سلائوں۔ جب صبح خواب استراحت سے بیدار ہو تو تیرا منہ دھلائوں۔ تیرے کھانے کیلئے قورمہ، قلیا، پلائو، پنیر، کوفتے، مکھن ملائی اور کھیر تیار کرائوں، اپنے ہاتھ سے تجھے کھلائوں۔ اگر تو مجھے اپنا گھر دکھا دے تو میں تازندگی صبح و شام تیرے ہاں دودھ اور مکھن پہنچا دیا کروں۔ میری تمام بھیڑ بکریاں تجھ پر قربان۔ حضرت موسیٰؑ نے اس کی یہ مستانہ باتیں سنیں اور قریب جا کر پوچھا کہ تو کس سے یہ باتیں کر رہا ہے، تو کس کا میزبان بننا چاہتا ہے، تجھے کس کو اپنے ہاں دعوت پر بلانے کی اس قدر آرزو ہے؟ گڈریا بولا۔ میں اس سے ہمکلام ہو رہا ہوں جو میرا پیدا کرنے والا ہے جس نے مجھے بولنے کے لیے زبان دی۔ مجھے یہ بھیڑ بکریاں عطا کیں۔ جن کے دودھ کو میں اپنی غذا اور جن کی پشم سے میں اپنالباس بناتا ہوں۔ جس نے مجھے یہ چیزیں دی ہیں میں اسی کے دیئے سے اس کی دعوت کرنا چاہتا ہوں اگر وہ مجھ غریب کے گھر تشریف لے آئے تو میں خوشی سے پھولے نہ سمائوں۔ میری آبرو بڑھ جائے گی اور اس کی شان میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ 

حضرت موسیٰؑ نے کہا۔ گڈریے! تیرا کلام بڑا گستاخانہ ہے تو خدا سے ایسی باتیں کر رہا ہے۔ وہ تو سب کا رازق ہے اسے کسی کھانے کی احتیاج نہیں۔ نہ وہ تھکتا ہے نہ اسے نیند آتی ہے۔ تو اس کے پائوں کیا دبائے گا تو کیا سمجھا کہ اس کا تیرے جیسا جسم ہے؟ جان لے اور یقین کرلے کہ اس کا کوئی جسم نہیں۔ اس کے تیرے جیسے ہاتھ پائوں نہیں وہ سب چیزوں سے بے نیاز ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہی سب کا حاجت روا ہے۔ وہ تیرے پاس کمبل پر بیٹھ کر تیری بکریوں کا دودھ نہیں پی سکتا۔ بس ایسے بے ادبانہ کلام سے توبہ کر۔ 

حضرت موسیٰؑ نے اس غریب گڈریے کو اس قدر دبایا کہ وہ بالکل سہم گیا اور کہنے لگا اے موسیٰؑ تو نے میری زبان بند کر دی۔ میرا منہ سی دیا اور پشیمانی پیدا کر کے میرا دل جلا دیا۔ پس وہ چیخ مار کر اور کپڑے پھاڑ کرایک طرف جنگل کونکل گیا اور نبی وقت کا حکم سن کر اس نے اللہ سے اپنی شوق بھری ہمکلامی چھوڑ دی اور اپنا ارمان دل ہی دل میں دبا کر بیٹھ رہا۔وہ گڈریا پڑھا لکھاآدمی نہ تھا کہ سوچ سمجھ کر شائستہ بات کرتا ہاں اس کے دل میں خدا کی محبت ضرور تھی اور وہ کمال شوق سے اسی کا اظہار کر رہا تھا۔ خدا کو اس کی یہ ذوق و شوق کی باتیں پیاری لگتی تھیں۔ جب وہ ان سے رک گیا تو اللہ تعالیٰ کو ناگوار معلوم ہوا۔ فوراً اس نے اپنے کلیم (حضرت موسیٰؑ)کی طرف وحی بھیجی کہ تو نے ہمارے ایک محب کو ہم سے جدا کر دیا۔ اے موسیٰؑ ہم نے تجھے اس لیے نبی بنایا تھا کہ تو بندوں کوہم سے ملائے مگر تو نے اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر اور راہ اختیار کر لی۔ اے موسیٰؑ ہم نیتوں کو دیکھتے ہیں عملوں کو نہیں دیکھتے۔ ہماری نظر حال پر ہے قال پر نہیں۔ ہمیں دلی سوز کی قدر ہے لفظوں کا خیال نہیں۔ جا اور ہم سے جدا کردہ بندے کو پھر اپنے شغل میں لگا کہ ہم کو وہی محبوب ہے۔ 

حضرت موسیٰؑ یہ حکم الٰہی سن کر پھر جنگل کو آئے اور بعد از تلاش بسیار اس گڈریے کو ڈھونڈا اور کہا بھائی! اپنی مناجات میں لگے رہو اور جو میں نے تمہیں روکا تھا اس کا کچھ خیال نہ کرو۔ تمہاری محبت اور سوز میں ڈوبی ہوئی باتیں خد اکو پیاری لگتی ہیں۔ اپنے شغل میں مصروف رہو اور مجھے معاف کر دو کہ میں تمہارے وظیفہ میں خلل انداز ہوا۔اللہ تعالیٰ نیتوں کو دیکھتا ہے۔ ظاہری اعمال پر اس کی نظر نہیں۔

ایمان بھی دو طرح کا ہوتا ہے موٹا اور باریک - عقیدت کی پہچان اور خلوص کی سمجھ جب الله کے پیغمبر کے لیے مشکل ہو گئی تو عام انسان کس کھیت کی مولی  ہے ؟ جو صرف سطح تک دیکھنے کی نظر رکھتا ہے گہرائی میں اترنے کی نہیں - یہ جو عقیدت اور وابستگی کی باریک راہیں ہیں ان کی پہچان اور پیمائش کسی ایسے شخص کے بس کی بات نہیں جو خود ان باریک راہوں کا مسافر نہیں جو صرف نیک نظر آنے کی کوشش کرتا ہے ... نیک ہوتا نہیں 

اور نیک نظر آنے کی کوشش الله کو راضی کرنے سے زیادہ لوگوں پر رعب جمانے یا  پھر ان میں نمایاں نظر آنے  کے لئے یا اپنے منصب کو نبھانے کی مجبوری کہ تحت یا پھر زیادہ سے زیادہ اس لئے کہ ارد گرد کے شریف نیک لوگوں میں بھرم قائم کرنے کے لئے مجبوراً ہوتی ہے 

ایسے ہی لوگ نیکی کے معنی کو مسخ کر کہ کمزور عقیدہ نازک مزاج لوگوں کو بھی دور بھگا دیتے ہیں اور مضبوط عقائد والے بھی ان سے بچ کے نکلتے ہیں کیونکہ یہی بظاھر نیک نظر آنے والے اپنے پاس موجود نیکی کی پیمائش کہ پیمانوں  کو نکال کہ فیصلہ صادر کر دیتے ہیں 

گہرائی میں اتر کر باریک راہوں کی پہچان ان کے بس  کا کام نہیں کیونکہ اس کی پہچان تو بس الله کو ہے یہ جس کو وہ اس کی ہدایت اور ذوق سے نواز دے 

No comments: