Friday 6 May 2022

فن سماعت


گفتگو  ایسی کرو کہ دوسروں کو تمہیں سننے کا شوق ہو ، اور سنو اس ڈھنگ سے کہ  لوگ تم سے بات کرنا پسندکرنے  لگی۔


 فن گفتگو واقعی ایک فن ہے  اس پر بہت کچھ لکھا گیا اور کہا گیا ہے لیکن سننے کے فن پر زیادہ بات نہیں کی گئی-   کہتے ہیں ،   '' ایک اچھا سننے والا ، ان سب  لوگوں کا ایک  بہترین معالج ہوتا ہے جو اپنی سوچوں اور  احساسات کے  مرض میں مبتلا  ہو جاتے  ہیں۔


گفتگو  کے فن میں آپ ماہر ہوں یا نہ ہوں، آپ کی بات میں اثر صرف دل سے سچی بات نکلنے سے آتا ہے لیکن سننے اور دلچسپی سے سننے کے ساتھ پوری توجہ اور ہمدردی سے سنتے رہنے کا فن کم ہی لوگوں کے پاس ہوتا ہے  اسی لئے ایک اچھا  معالج  ہونے کے لئے سب سے پہلی شرط یہی  ہوتی ہے۔ 


اشرف المخلوقات ہونے  کی سب سے بڑی پہچان آدمی کا سمیع اور بصیر ہونا ہے یعنی انسان کے پاس  سماعت اور بصارت  کا ہونا  - ہیلن کیلر ایک مشہورمصنفہ جو سماعت ، گویائی اور نظر سے محروم   تھیں ، کہا کرتی تھیں کہ دیکھنے کی صلاحیت تو بہت     سے لوگ پاس ہے  مگر بصیرت کسی کسی کے پاس ہوتی ہے-  اور میرا کہنا ہے کہ  سننے کی صلاحیت تو اکثر لوگ رکھتے ہیں مگر سماعت کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے 


سماعت کے لئے بات کو صرف رد عمل ظاہر کرنے کے خاطر نہیں غور کرنے  اور جذب کرنے کے لئے سننے کی صلاحیت ہونا لازمی ہے- نہ کہ جھٹ سے جواب  داغ دینے کے لئے -  ہماری شخصیت میں نکھار صرف اس ایک ہی وجہ سے پیدا  ہوتا ہے کہ ہم  حالات و واقعات پر کیسا رد عمل ظاہر کرتے ہیں - اکثر لوگ ماضی کے تجربات اور  ملتی جلتی صورتحال پر ہی اکتفا کرتے هوئے بلا سوچے سمجھے اپنا رد عمل یا فوری جواب دے مارتے ہیں۔ 


 دماغی ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی دماغ  میں روزانہ 95000  کے قریب سوچیں موجود ہوتی ہیں جن میں سے99  فیصد سوچیں پرانی ہی ہوتی ہیں اور   نئی سوچ صرف ہمارے نئے اور  بہتر رد عمل سے جنم لیتی ہے -   یہی نئی سوچ در اصل آئندہ کے لئے ہمارا رویہ تبدیل کر کے پہلے سے بہتر بناتی ہے۔


کسی بھی صورت حال یا اپنے ساتھ پیش آنے  والے واقعہ  پرفوری رد عمل سے پہلے   اگر تھوڑی دیر توقف کر کے غور کر لیا جا ئے  تاکہ بہتر رد عمل دکھایا جا سکے تو دھیرے دھیرے اس بہتر رد عمل کی عادت ہو  جاتی ہے اور پھر ہر رد عمل بہت بہتر اور خوصورت ہونے سےشخصیت میں نکھار آنے لگتا ہے۔ 


اس کو اچھا سننے اور سماعت رکھنے  کا فن کہا جاتا ہے - سماعت میں بہتری سے وقت کے ساتھ ساتھ  ہماری ترجیحات میں بھی تبدیلی آنے لگتی ہے  اور ہمیں لغویات اور ا علی لذات  کا فرق سمجھ میں آنے  لگتا ہے - ہمارا دل دنیاوی کھیل تماشوں،  نام نہاد روشن خیالی اور آزادی کے نام پر اختیار کی جانے والی بے راہ روی  سے اچاٹ ہو جاتا ہے۔


بصیرت بھی ہمیں غور کرنےاور  تھوڑا رک کر گہرائی میں سوچنے سے حاصل ہوتی ہے - آنکھوں دیکھی صورت حال بھی کئی بار ہماری پرانی سوچ اور یادداشتوں  کی بنا پر ہمیں وہی کچھ دکھاتی ہے  جو ہم دیکھنا  چاہتے ہیں - اسی لئیے کہا جاتا ہے کہ خوبصورتی منظر میں نہیں ہماری آنکھ یعنی ہماری بصیرت میں ہوتی ہے۔ 


خالق کائنات  کو بھی انسان پر جو تین بڑے شکوے ہیں ان میں . شکر نہ کرنا ، توبہ  اور معافی طلب نہ کرنے کے ساتھ ایک سب سے اہم شکوہ  غور و فکر نہ کرنا ہے۔ 

یہی وہ چند خواص ہیں جن سے سے ایک آدمی انسان سے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔


سمیع اور بصیر یعنی اشرف المخلوقات  کے درجے پر لیجانے کا ایک یہی راستہ ہے کہ خود کوزیادہ سے زیادہ  اشرف المخلوقات کے زیر اثر رکھا جا ئے اور جہاں تک ہو سکے ان ہی کی صحبت اختیار کی جا ئے - کم از کم ان کے فرمودات کا باقائدگی سے مطالعہ کرتے رہنا ان کہ ارشادات کو سنتے  رہنا غور کرنا اور ان کے زندگی گزرانے کے ڈھنگ کو سیکھنا اس کے لئے بہت    ضروری ہے۔۔


ہم اکثر دعوی تو  ان ہی عظیم ہستیوں سے وابستگی کا کرتے ہیں مگر سنتے ، پڑھتے  اور ذکر کرتے هوئے نظر آتے ہیں سیاسی شخصیات کا  یا اداکاروں ، گلوکاروں ، کھلاڑیوں  اور دولت مندوں کا کیونکہ زیر اثر انہی کے رہتے ہیں جن کو سنتے اور دیکھتے ہیں اور غور کرتے ہیں -  خود ہی سوچیں پھر ہمارے اصل ہیرو  کون هوئے ؟  کیونکہ انسان جس سے واقعی محبت کرتا ہے اسی کا بار بار ذکر  کرتا ہے  اور جس سے نفرت ہو اس کا ذکر تک سننا پسند نہیں کرتا۔

 

اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانے کے لئے تھوڑی ہمت کر کے اپنے رد عمل کو بہتر بنا لینا بے حد ضروری ہے - اسی سے ہماری لذات کے چناؤ میں نکھار   آتا ہے اور ہمیں در حقیقت  ان ا علی لذات سے رغبت پیدا ہونے لگتی ہے جو ابھی پھیکی اور بے ذائقہ  سی لگ رہی ہوتی ہیں جیسے ایک مریض کو لذیذ  ترین کھانے بھی بک بکے سے لگتے ہیں - مسلہ در اصل ان لذات میں نہیں ہوتا  ہماری ہی بیمار حالت کا ہوتاہے  جس  کا علاج بے حد ضروری ہے۔



کاشف احمد 



No comments: