Thursday 2 June 2022

چراغ اور آئینہ

:روشنی پھیلانے کے دو  ہی طریقے ہیں

یا تو ایک چراغ کی مانند بنو یا پھر آئینے کی طرح اس روشنی کو منعکس ضرور کیا کرو 

شروع میں کچھ وقت لگا مجھے،  ایڈتھ وارٹن کے اس حضرت جلال الدین رومی سے متاثرہ قول کو سمجھنے میں- مگر دھیرے دھیرے جب بات سمجھ میں آنے لگی توپتہ  لگا کہ چراغ سے یہاں روشنی کے منبع اوران سب عظیم  ہستیوں  کو تشبیہ دی گئی ہے جن کی اخلاقی بلندی، تہذیب و عقائد اور اعلی اقدار  کی پاسداری کی  وجہ سے دنیاکی  تاریخ کےدھارے کا رخ بدل گیا اوران کی انسانیت کی فلاح بہبود کے لئے خدمات کے بے مثل کارناموں کی وجہ سے ان کے نام ہمیشہ زندہ رہیں گے 

یہ وہ سب مصنفین بھی ہوسکتے ہیں جو بظاہر ایک عام آدمی کی طرح ہی معاشرے کے حصہ رہے اور وہ سب  سماجی کارکن ، حادثاتی مدد پہنچانے والے ، وہ عظیم والدین ، استاد اور مذہبی یا روحانی ترقی کے رہنما بھی جنہوں نے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھا اور اپنی زندگی کو اچھائی پھیلانے اورانسانیت  کی خدمت کے لئے وقف کر دیا

ہم میں سے ہر ایک کبھی ایک چراغ اور کبھی آئینے کی طرح ہے اور ہر انسان میں یہ صلاحیت ودیعت کر دی گئی ہے کہ وہ بیک وقت ایک چر اغ اور آئینہ دونوں بن سکتا ہے - ایک شرمیلے اور ہجوم سے دور رہنے والے کو بھی اچھائی دکھانے اور انسانی ہمدردی کے کاموں کا موقع ضرور ملتا ہے 

آئینہ در اصل وہ سب لوگ ہیں جو چراغوں کی طرح روشن عظیم ہستیوں کی دانائی، شعور، فلاح وبہبود، انکی  بنی نوع کی خدمت اور رہنمائی کے شاندار کارناموں سے سیکھ کرانہیں لوگوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں - کسی بری یا سنسنی خیز  خبر یا معلومات کی جگہ  اچھی اور مفید بات کو نہ صرف لوگوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں بلکہ ان چراغوں کی حوصلہ افزائی ، مدد ، تعریف و ترویج  کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں - چاہے وہ ان کا ذکر اپنی باتوں میں کرتے رہیں کچھ تحریر کر کے ان کی بات آگے پھیلائیں یا پھر کوئی ویب سائٹ بنا کر یا سوشل میڈیا پوسٹس میں ان کا ذکر کریں 

آپ کی زندگی  میں بھی کوئی ایسا استاد یا رہنما ضرور رہا ہوگا جس سے آپ کی سوچ روشن ہوئی اوراسی  کے اثر  سے آپ پہلے سے  بہتر انسان بن سکے-  کیا آپ پر فرض نہیں کہ یہ کہانی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا کر ان کی زندگیوں میں بھی انقلاب برپا کرنےکی کوشش کریں ؟ اگر آپ ابھی اس قابل نہیں کہ ایسے شاندار لوگوں کا ہر طرح ساتھ دیں سکیں اور ہاتھ بٹا سکیں تو کم از کم ان کی حوصلہ افزائی کی خاطر ہی دوسرے لوگوں تک ان کی بات کو پہنچانے کا کام کر سکتے ہیں 

ہم سوشل میڈیا اور عام بات چیت میں منفی قسم کے خیالات اور خبروں کو تو زیر بحث لاتے رہتے ہیں یا لغویات سے لطف اندوز ہونے کی خاطر سب کو اس میں شامل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اچھی باتوں اور کارناموں کو پھیلانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں 

اپنے آپ کواور اپنے زیر اثر افراد کو  اس بات کی یاد دہانی کرواتے رہنا چاہئیےکہ ہمیں ایک چراغ کی طرح نہیں تو آئینے کی طرح ضرور بننا ہے اندھیرے کی نہیں روشنی کی ترویج کرنی ہے - کیونکہ روشنی کو ترویج دینے والوں کی عمر لمبی ہوتی ہے - اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ وقت کی حدوں سے باہر نکل کر ایک ایسی دائمی حیات پا لیں جس کو کبھی موت نہ آئے اور رہتی دنیا تک آپ کا نام قائم رہے تو اس کا بس ایک یہی طریقہ ہے اور یہ اس خالق کائنات کا بھی وعدہ ہے کہ جسے دائمی حیات کی تمنا ہے وہ ایک روشن چراغ بنے یا کم از کم اس روشنی کی ترویج میں ممد و معاون ہو - کیونکہ ہماری ہر خوشی ، راحت اور اطمینان ، آسائش اور نعمت در اصل ہمارے ارد گرد موجود ہمارے ان چند اچھے اور نیک لوگوں سے منسلک رہنے سے وابستہ ہے - جتنی عقیدت و قربت بڑھتی جاتی ہے اور جتنی ان کی خدمت میں اضافہ کرتے ہیں اتنا ہی فضل اور انعام بڑھتا ہے - باقی سب تو صرف نظر کا دھوکہ اور عارضی فرار رہ رہ جاتا ہے 



ایک شخص اپنے بھائی کی شکایات لے کر  خدا کے ایک انتہائی برگزیدہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کے '' اعلیٰ حضرت میرا بھائی کوئی کام دھندا نہیں کرتا صرف دوسروں کی بھلائی اور فلاح بہبود کے کاموں میں لگا رہتا ہے نیکی کی ترغیب دیتا ہے اور لوگوں میں ہدایت شعور اور دانائی پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے- اب آدمی کو اتنا نیک بھی نہیں ہونا چاہئیےکے اپنے اور اپنے گھر والوں کے روزگار کی فکر بھی نہ ہو

الله کے وہ پیارے بزرگ فرمانے لگے '' تمہارے بھائی کو میں جانتا ہوں وہ ایک نیک انسان ہے اور جانتے ہو یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا نیک انسانوں کے لئے بنی اور ان ہی کی وجہ سے ہی قائم ہے ؟-  وہ شخص کہنے لگا کہ '' اعلیٰ حضرت شائد اس لئے کہ انہی چند اچھے اور نیک لوگوں کی خاطر ہم جیسے گناہ گاروں کی پکڑ میں رعایت ہو جاتی ہے -'' وہ عظیم ترین بزرگ فرمانے لگے '' جا تجھ سے بھی تیرے بھائی کی وجہ سے رعایت برتی جا رہی ہے اور شکر کیا کر کہ تجھے اس کے حصّے کا رزق دیا جاتا ہے تاکہ اس کے نیک کاموں میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو - دنیا بنی ہی اچھائی  ،نیکی اور بھلائی کے کاموں کے لئے ہے اور جو یہ کام کرتے ہیں ان کا ذمہ وہ خالق کائنات خود اٹھا لیتا ہے - ان ہی کی وجہ سے دنیا میں تمام آسانیاں ، آسائشیں ،فضل و انعام اور نعمتیں ان سے خود کو منسوب رکھنے والوں تک پہنچتی ہیں اور پھر انہی کا بچا کھچا باقی لوگ بھی کھاتے ہیں 

یہی وہ روشن چراغ ہیں جن سے وابستگی کی دعویداری پرہی آدمی عافیت کے حصار میں آ جاتا ہے - جتنا جتنا ان سے قرب و عقیدت مندی میں   اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی  فضل و کرم ،آسانیاں اور آسائشیں حاصل ہوتی ہیں اور جتنا بھی ان کا ساتھ دینے ، ہاتھ بٹانے، سہولت میسر کرنے کے کاموں کی توفیق بڑھتی جاتی ہے اتنی ہی فضل و انعام ، خوشیاں اور اطمینان کی بارش بڑھتی ہے 

نیکی ، اچھائی ، فلاح بہبود اور بھلائی کے کاموں کے علاوہ جو مال بھی کسی بھی اوراستعمال میں ہوتا ہے یا استعمال  کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے وہ خالق کائنات کی نظر میں صرف ایک غلاظت کا ڈھیر ہے اور ان عظیم کاموں کے علاوہ مال و دولت ، آسائش اور آرام کی طلب و حرص بھی در اصل غلاظت کی خواہش کرنے کے مترادف ہے 

یہاں تک کہ وہ علم بھی ایک غلاظت کا ڈھیر ہے جوانسانیت کی فلاح وبہبود، نیکی اور بھلائی کے کاموں  کی بجائے مال کمانے اورذاتی مفاد کی خاطر استعمال کیا جاتا ہو - ایک دانشور اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''میں شہر سے چھٹیوں میں جب اپنے گاؤں گیا تو اپنے تایا جی پر اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے کی خاطربتانے لگا کہ ''تایا جی آپ کو پتہ ہے کہ مکھی کی آنکھ میں 700 کے قریب عدسے لگے ہوتے ہیں جس سے ہر طرف ہر چیز  بہت آسانی سے  دیکھ لیتی ہے 

وہ دانشور بزرگ  کہتے ہیں کہ مجھے امید تھی کہ  میرے دیہاتی ان پڑھ سے تایا جی میری علمیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے مگر تایا جی نے کہا '' لاکھ لعنت ہو ایسی آنکھ پر جب مکھی نے بیٹھنا جا کر گند پر ہی ہوتا ہے ''- یہی فرق ہوتا ہے ایک عام مکھی اور شہد کی مکھی میں - شہد کی مکھی ہمیشہ پاک جگہ رہتی ہے خوبصورت  باغوں اور پھولوں میں رہ کر شہد تیار کرتی ہے اور اس پر وحی کا نزول ہوتا ہے

اسی طرح ان روشن چراغوں کی روشنی کو منعکس کرنے والےلوگ جو آئینے کی مانند ہوتےہیں ، وہ لکھنے والے اور مصنفین، وہ اچھائی بہتری اور بھلائی کی بات بتانے والے ،آسانیاں  دینے والے اور کام آنے والے بھی اسی طرح حوصلہ افزائی ، تعریف ستائش کے ساتھ ساتھ مزید ترویج و اشاعت کے بھی حقدار ہوتے ہیں تا کہ زندگی میں فضل و کرم ، انعامات اور آسانیاں قائم و دائم رہ سکیں

یہی انسان کا مقصد حیات ہے اور اسی طرح وہ بوڑھا نہیں بلکہ بڑا انسان بنتا ہے - ذرا غور کیجئیے! آپ کو اپنے باپ دادوں میں سے کتنوں کے نام یاد ہیں - اپنے پردادا تک یا ان سے پہلے کے بھی آباؤ اجداد تک ؟ جن کا نام بھی اب تک زندہ ہے اس کی یہی ایک وجہ ہے کہ یا تو وہ خود ایک چراغ کی مانند تھے یا پھر آئینے کی طرح اس مقدس روشنی کے پھیلاؤ کے  لئے ہر وقت فعال اور کوشاں رہے

بہت سے لوگ صرف علم کی روشنی  حاصل کر لینے کو کافی سمجھ لیتے ہیں جبکہ بنا اس علم کے اثر اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دانائی کے ، اس علم کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اکثر ایسا علم نقصان دہ ثابت ہو کر انسان کو بس مالی فائدہ حاصل کرنے پر لگا دیتا ہے چاہے کسی طرح بھی یہ فائدہ حاصل ہو بس جیسے تیسے حاصل کرو باقی سب لوگ صرف اس علم کے زور پر صرف اس ذاتی فائدہ کی خاطر استعمال کرنے کیئے جانے کے لئے ہی تو ہیں، کوئی حقیقی  شعور اور فائدہ دینے کے لئے نہیں-

علم بنا دانائی کے ایک لا حاصل چیز ہے ، ایسے ہی جیسے چراغ کو صاف ستھرا کر کے اس میں تیل ڈال کر تیار تو کر دیا جاے مگر جلا کر روشن نہ کیا جائے کیونکہ روشن ہونے کے لئے جلنا پڑتا ہے ، تردد کرنا پڑتا ہے دانائی کی بھٹی سے گزر کر دنیا کو روشن کرنا پڑتا ہے - اسی لئے اکثر لوگ علم کو جذب کر کے اس کا اثر حاصل نہیں کرتے اپنی ذات کا حصہ بنا کر شعور حاصل نہیں کرتے اور دراصل یہی شعور بانٹنا ہے روشنی پھیلانا ہے

اسی طرح کئی لوگ اپنی ذات کے آئینے  کو شفاف تو کر لیتے ہیں ، آلائشوں سے پاک رکھتے ہیںاور  چمکا کر  یہی سمجھتے ہیں کہ زندگی کا مقصد پورا ہو گیا مگر یہ تو ابھی ابتدائی درجہ ہے اس سے آگے اپنی ذات سے پردہ ہٹانا ہوتا ہے اور روشنی کو منعکس ہونے دینا ضروری ہے اور اس کے لئے کم از کم روشنی کو من و عن اسی طرح سے پڑھ کے سنا دینا تو ایک اچھائی ضرورہے، مگر  نچلے درجے کی - اصل بات تو تب ہے کہ روشنی کو جذب کرو اور جو تبدیلی اور اثر محسوس ہو اسے آگے بیان کرو اور پھیلاؤ 

ایک غلط فہمی یا یوں کہ لیجیے کہ بہانہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کچھ جگہوں پر علم و شعور کی روشنی کی ترویج ممکن نہں کیونکہ ظالمانہ پابندیاں ہیں ہمارے روشن چراغوں اور عظیم ہستیوں کی روشنی کی ترویج اور پھیلانے پر یا دوسرے لفظوں میں تبلیغ کرنے پر پابندی ہے- جبکہ اس غلط فہمی کا ازالہ تو اسی طرح ہو جاتا ہے کہ آپ خود اس روشنی کو جذب کر کے اپنے تجربے کو آگے بیان کریں

 اور پھر دنیا میں اس خالق کائنات نے اور بھی  بے شمار چھوٹے بڑے ایسے ہی روشن چراغ پیدا کر رکھے تھے اور اب بھی ہیں جن کی روشنی کا انداز مختلف ہو سکتا ہے رنگ بھی ہوسکتا تھوڑا الگ ہو مگر روشنی تو بہرحال روشنی ہی ہوتی ہے آپ کا کام تو اسے حاصل کرنا ، جذب کرلینا اور خود روشن ہوجانا ہے یا پھر کم از کم منعکس کر دینا ہے  - ان سب عظیم ہستیوں اور بزرگوں سے فیض حاصل کرنا ، جذب کرنا اور روشن ہوجانا در اصل ہمارا مقصد حیات ہے یا کم از کم اسی  ملتی جلتی سی روشنی اور خوبصورت باتوں منعکس کرتے رہنے کی ہمہ وقت کوشش کرتے رہنا 

اپنے ارد گرد آج ہی نظر دوڑائیے، آپ کو ایسے  بے شمار روشن چراغ دکھائی دیں گے جن کی روشنی آپ کی زندگی کو اندھیروں سے نکال  کر منور کر دے گی - لیکن صرف اپنی زندگی کو ہی منور مت کیجئیے کیونکہ یہ روشنی بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ اور بڑھتی ہے

فیصلہ کر لیجئے کہ آج سے ہی شروعات کرنی ہے اوراپنے پیاروں پر ہی نہیں سب لوگوں پر پران عظیم ہستیوں اور  اسلاف کا  ایک بہترین اثر قائم کرنے کی خاطر ان چراغ نما ہستیوں کا تعارف ہر ممکن جگہ کروانا ہےاور ان کی ہر شخص کی  نظرمیں ایک منفرد، قابل احترام شناخت پیدا کرنی ہے- جتنا بھی  ممکن ہو سکے  ان کا ساتھ دینا ہی ہے، ہاتھ بٹاناہے یا کم از کم ان  اندھیرا بڑھانے والی خبروں ، تحریروں, سوشل میڈیا پوسٹس اور دوسری تمام لغویات کو ترک کر کےصرف ان روشنی پھیلانے والے اقوال اور تحریروں کی ترویج کو ہرممکن طریقے سے لوگوں تک پہنچاتے رہنا ہے 

کاشف احمد 

No comments: