Friday 17 June 2022

جدید ٹیکنالوجی اورنظام جہان نو

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مغربی ممالک کو کس بات کا احساس برتری  ہے 

 لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے صدیوں تک محکوم رہنے والے لوگوں کو اب تک ان  زبردستی کے قابض ،لوٹ کھسوٹ کرنے والوں سے کس بات پر احساس کمتری محسوس ہوتا ہے ؟

کیا اب تک ان کے دماغ  خود کو غلام اور انہیں آقا تسلیم کرنا نہیں چھوڑ رہے ؟

شائد اس کی بڑی وجہ  وہ نو آبادیاتی نظام ہے جو  بلواسطہ طور پر ان غریب اور پسماندہ سمجھے جانے والے ممالک میں اب تک قائم ہے اور ان ممالک کی سادہ لوح عوام اب تک اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ وہ اب بھی سامراج کی غلام ہے - یوں کہ لیجئے کہ در اصل معاشی غلام ہیں اور  ان کی معاشی اور کافی حد تک معاشرتی بدحالی کے پیچھے بھی یہی محرکات ہیں

نو آبادیاتی نظام سے مراد کسی ایک علاقے کے لوگوں کا دوسرے علاقے میں جا کر اپنی نئی آبادیاں قائم کرنا اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسے توسیع دینا ہے۔ جہاں یہ نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں کے اصل باشندوں پر قابض گروہ عموماً اپنے قوانین، معاشرت اور حکومت بھی مسلط کر دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قابض گروہ اور نوآبادی کے اصل باشندوں کے درمیان نا انصافی اور جبر پر مبنی ایک تعلق ہے جس میں اصل باشندوں کا استحصال ہوتا ہے۔

نوآبادیاتی نظام کے ساتھ ہمیں ایک اور اصطلاح ''سامراج''  سننے کو ملتی ہے- آئیں دیکھتے ہیں سامراج سے کیا مراد ہے

سامراج ہم ان سرمایہ دار ملکوں کو کہتے ہیں جنہوں نے اپنی لوٹ کھسوٹ کا بازار نہ صرف اپنے ملک کے سادہ لوح ،  بظاہرانکی اپنی نظر اور سوچ کے مطابق کمزور اور پسماندہ افراد کے وسائل اور صلاحیتوں کے  استحصال سے گرم رکھا بلکہ اس کو مزید وسعت دینے کے لئے    پوری دنیا کے کمزور ممالک تک اس نو آبادیاتی نظام کی بنیاد ڈالی۔

یہی وہ ممالک یا قومیں ہیں  جہاں سرمایہ دارانہ نظام سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے ۔ اور جہاں کا سرمایہ دار طبقہ نہ صرف اپنے ملک کے مزدوروں کو لوٹتا ہے۔ بلکہ دنیا کے تمام کمزور اور غریب ملکوں کے عوام کی لوٹ کھسوٹ سے اپنے خزانے بھرتا ہے۔ 

سامراجی ممالک، جیسا کہ انگلستان ، اسپین ، فرانس ، پرتگال اور ڈچ ریپبلک جو آج کل نیدر لینڈ اور جرمنی وغیرہ کہلاتے ہیں، اپنی اس لوٹ مار کو جاری رکھنے کی خاطر ان غریب ملکوں کے اندرونی سیاست میں دخل دیتے آئے  ہیں۔ اور ان کمزور ممالک کو مجبور کرتے ہیں  کہ وہ سامراجی پالیسیوں پر عمل درآمد کریں۔ اور عالمی سیاست میں ان کے آلہ کار کے طور پر کام کریں۔ اگر کوئی کمزور ملک ان کا حکم ماننے سے انکار کر دے تو وہاں دھمکیوں اور سازشوں سے کام لیتے ہیں۔ یا پھر اسٹیبلشمنٹ( فوج ) کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹوا دیتے ہیں۔ اور اپنی مرضی کا حکمران ملک پر مسلط کر دیتے ہیں۔۔۔!

در اصل گوری چمڑی والےامریکی، آسٹریلین اور کینیڈین  بھی انگلستان سے ہی جا کر ایک طرح کی نو آبادی کو قائم  کر کے وہاں کے مقامی لوگوں کے تمام وسائل  اور صلاحیتوں پر  پوری طرح سے قابض ہو جانے والے انگریز ہی ہیں جنہوں نے مقامی باشندوں کا کروڑوں کی تعداد میں پہلے قتل عام جاری رکھا پھر ان پر ایسے قابض ہوئے کہ  آج تک مقامی لوگوں کا کوئی نام و نشان اگر نظر بھی آتاہے تو ناقابل ذکر ہوتا ہے

دنیا میں سامراج کی حیثیت ایسی ہوتی ہے۔ جیسی کہ کسی ملک کے اندر بڑے سرمایہ دار کی۔ جس طرح کسی ملک کے اندر سرمایہ دار طبقہ غریب، محنت کش، عوام پر ظلم کر کے ان کو کمزور بھوکا اور محتاج بنا دیتا ہے۔ اگر ہم پوری دنیا کو ایک ملک تصور کر لیں تو سامراج اس ملک کا سرمایہ دار طبقہ ہو گا۔ اور دنیا کے غریب ملک اس کے مزدور یا کسان یا مظلوم عوام ہوں گے۔

سامراجی کنٹرول  لوٹ کھسوٹ اور مقامی باشندوں کی نسل کشی کی تاریخ بھی اتنی ہی طویل اور قدیم ہے جتنی نوآبادیاتی نظام کی تاریخ مگر اس کو دنیا کی تاریخ سے غائب  کرنے اور مسخ کر کے پیش کرنے کا کام بھی بہت شدت سے جاری ہے تاکہ سامراجی قوموں کے اجلے چہروں پر بدنامی کا یہ داغ کسی نہ کسی طرح دھل سکے

پچھلی صدی کے وسط تک دنیا کے کئی ملکوں پر سامراج پرانے نو آبادیاتی طریقوں سے کنٹرول قائم رکھتا تھا۔ یعنی سامراج فوجیں ان ملکوں پر قبضہ کر لیتی تھیں۔ اور سامراج بذات خود ملک پر قابض ہو جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں 1947 سے پہلے سامراج پرانے نو آبادیاتی طریقوں سے ملکوں پر اپنا تسلط قائم کرتا تھا۔ پرانے نو آبادیاتی نظام کے خلاف جب بغاوتیں شروع ہوئیں۔ تو سامراج نے اسکی جگہ جدید نو آبادیاتی نظام مسلط کیا۔ برصغیر میں تمام ممالک کو آزادی دی گئی۔ وہاں سے اپنے فوجیں اور حکمران واپس بلا لیے۔ اور ان کی جگہ اپنے مقامی ایجنٹ کو حکمران بنا دیا۔ جو سامراج کے حصہ دار بن گئے اور سامراج کی پالیسیوں کو اپنانے لگے۔ 1947 سے اب تک پاکستان اس کی بہترین مثال ہے۔ 

سامراج نے آزاد کردہ ملکوں کی لوٹ کھسوٹ کا نیا طریقہ متعارف کروایا۔ مثلاً پاکستان سمیت ایسے تمام سابقہ محکوم ممالک کو ملنے والی "نام نہاد امداد" مدد نہیں بلکہ قرض ہوتی ہے۔ اس میں لوٹ کھسوٹ مندرجہ ذیل طریقوں سے ہوتی ہے۔

1) ہمیں اس امداد پر سود دینا پڑتا ہے۔ جو ملک ایک مرتبہ اس سامراجی گیم میں پھنس گیا پھر اس سے نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اور سود ختم کرنے کے لیے مزید امداد کی ضرورت ہوتی ہے جو سامراج سے لینا پڑتاہے۔ 

2) اور سامراج سے جو قرض لیتے ہیں اس رقم سے صرف سامراج سے تجارت کی جا سکتی ہے اور کسی سے نہیں۔۔۔!

سامراجی ممالک چاہتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ان کے غلام رہیں۔ اور کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوں۔ سامراج دنیا کے غریب ممالک کا سیاسی نظام اپنے کنٹرول میں کرتا ہے۔ اور ان ممالک میں لوٹ کھسوٹ کا سیاسی نظام چاہتا ہے۔ اور وہ ہر طرح کی محب وطن، عوام دوست، اور ترقی پسند تحریکوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سامراج قدامت پرست سیاسی جماعتوں کو امداد دیتا ہے،یہاں تک کہ لسانی، ثقافتی اور مذہبی اعتقادات میں پوری طرح تربیت یافتہ ایجنٹ  تیار کر کے ان ممالک میں بنیادی دینی عقائد اور مقامی دینی، ادبی اور ثقافتی  شخصیات سے لوگوں کی سوچ کو متنفرکرنے کا کام بھی کرتا ہے -  تا کہ مقامی افرد اپنی ہی قوم ،اس کی  روایت ، ثقافت ،عقائد اور ان کی علمبردار شخصیات سےمتنفر رہیں، خود پر  بے یقینی اور شرمندگی محسوس کرتے رہیں  - سامراج رجعت پسند رسالوں، میڈیا اور اخباروں کی مدد کرتا ہے۔ اور یہ رسالے،میڈیااور اخبارات سامراجی نظام کی حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح جدید نو آبادیاتی نظام کے تحت سامراج تمام دنیا کے غریب ممالک کو اپنے کنٹرول میں چلا رہا ہے۔۔۔!

اسے بلواسطہ یا نیا نوآبادیاتی نظام کہا جاتا ہے اور سامراجی سوچ کا کہنا ہے کہ

"ہم اپنی عالمی سیاسی طاقت زمین پر زبردستی قبضہ کر کے نہیں بڑھاتے۔ ہم اپنی طاقت بڑھانے کے لیے اب مہذب لوگوں کی طرح معاہدے کرتے ہیں، اتحاد بناتے ہیں، نگرانی کے نظام، تجارت اورکارپوریشن کے معاہدے کرتے ہیں، خفیہ معاہدے طے پاتے ہیں اور اہم ترین جگہ پر دہشت گردی سے نمٹنے کے بہانے قبضہ کرتے ہیں۔ ۔"

اس بلواسطہ نوآبادیاتی نظام کو آگے بڑھانے اور مزید مضبوط اور موثر کرنے کےلئے اسی ایک ہتھیار کا سہارا لیا جاتا رہا ہے جس کا استعمال شروع شروع میں میں براہ راست نوآبادیاتی نظام کے قیام اور پھر اسے قائم و دائم ، مضبوط اور موثر رکھنے کے لئے کیا جاتا رہا

یہ ہتھیار ٹیکنالوجی کہلاتا ہے جسے در اصل سامراج کو امیر سے امیر تر اور غریب عوام کو غریب سے غریب تر کرنے کے کام میں لایاجاتا ہے- مگر اس بات کو ہمیشہ یقینی  بنا کرکہ  عام آدمی اس جھانسے میں رہے کہ ٹیکنالوجی کو در اصل اس کی زندگی آسان بنانے کے لئے فراہم کیا جاتا ہے- عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو وہ استعمال کرتا ہے مگر دراصل وہ نہیں جانتا کہ ٹیکنالوجی تو اسے استعمال کرنے کے لئے بنائی گئی ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی خاص طور پر جدید آئی ٹی، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل مصنوعات بہت آسانی سے لوگوں پر کنٹرول اور استحصال کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے اور اس کی ایجاد اور فروغ ہی در اصل معاشی عدم  استحکام کی وجہ ہےاور اس کو حد سے زیادہ فروغ دینے کا کام الیکٹرانک، پرنٹ اور سوش  میڈیا کر رہا ہے

ان ماہرین کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے جدید رجحانات لوگوں کی اکثریت کو ایک مراعات یافتہ طبقے کے قدموں کی دھول کی طرح بنا دیں گے - بہت سے لوگوں کے  معیار ر زندگی میں نمایاں بہتری آئے گی لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ لوگوں کی زندگی زبوں حالی کا شکار ہو جائے گی کیونکہ سیلیکون ویلی میں بیشتر جدید ٹیکنالوجی امیر طبقے کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تیار کی جا رہی ہے

جدید ٹیکنالوجی کا یہ امڈتا ہوا سیلاب در اصل دنیا کی تعلیمی اور ملکی صلاحیت اور قابلیت کو للکار رہا ہے اور یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ '' کیا بیشتر نو آبادیاتی اور سامراجی قوتوں کے استحصال کا شکار ممالک اس قابل بھی ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کو درست طور پر سمجھ کر اس کا صحیح استعمال کر سکیں ؟''- یقیناً  ایسا نہیں ہے کیونکہ تاریخ یہ بات بار بار ثابت کر چکی ہے - سامراجی قوموں نے اس سے پہلے بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی نوآبادیاتی نظام کو مستحکم  اور موثر بنایا اور اب بھی جدید بلواسطہ نوآبادیاتی نظام کو اسی ہتھیارکے استعمال سے مضبوط بنا رہے ہیں

نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم ڈیجیٹل سہولت یافتہ اور غیر سہولت یافتہ افراد سے بھری ہوئی دنیا کو دیکھ رہے ہیں جن میں سے اکثریت کو اس ڈیجیٹل اور جدید ٹیکنالوجی تک دسترس تو حاصل ہے مگر وہ امیر اور مراعات یافتہ طبقے کے مقابلے میں  بہت کم سہولیات اور فوائد حاصل کر سکتے ہیں- جس سے معاشرتی اور معاشی عدم استحکام پیدا  ہو رہا ہے اوردنیا بھر کی آبادی کی اکثریت، بے چینی ، بے راہ روی، عدم اعتمادی کے ساتھ ساتھ ذہنی الجھنوں کا شکار ہو کر دماغی امراض


اور انتہا پسندی کی طرف مائل ہو رہی ہے 

نیو یارک یونیورسٹی کی دوراندیش حکمت عملی (اسٹریجیک فورسائٹ) کی ایک پروفیسرایمی ویب جو ''فیوچر  ٹوڈے'' (یعنی آج کا مستقبل ) نامی مشہور ادارے کی بھی  بانی ہیں، کہتی ہیں کہ '' دنیا میں جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی 9  بڑی کمپنیاں ہیں جن کو میں ''بگ نائن'' کہتی ہوں یہی وہ کمپنیاں ہیں جن کے ہاتھ میں انسانیت کا مستقبل ہے کیونکہ یہی کمپنیاں مستقبل کی مصنوعی ذہانت کو تشکیل دے کر مزید با صلاحیت اور بہت طاقتور بنارہی ہیں

ہم اپنی آزاد سوچ، انتخاب اور فیصلے کرنے کے حق کا سودا صرف سہولت حاصل کرنے کے نام پر کرتے چلے جا رہے ہیں اور جو بھی مختصر سی   فہرست  اپنے لئے کچھ منتخب کرنے کے لیے  فراہم کی جاتی ہے  جیسے کھانا کھانے کے لئے ریسٹورنٹس کی فہرست اور ان ہی ریسٹورنٹس یا پھر ٹی وی چننلز  میں سے یا کسی ایسی اور سہولت میں سے ہی اپناانتخاب  کرنے کے لئے ہمیں پابند اور مجبور کیا  جا چکا ہے 

یعنی اس جدید  نو آبادیاتی نظام میں ہماری بیڑیوں کو اور لمبا کر کے سہولت بڑھا دی  گئی ہے اور ہم خوش  ہیں کہ ہمیں اتنی  آزادی تو مل گئی ہے کہ  خود سے کسی بھی اس چیز کا انتخاب کر سکتے ہیں جو ہمیں دی گئی فہرست میں موجود ہو

ہماری نجی اور پیشہ ورانہ زندگیاں سہولت کار کمپنیوں جیسے ایمازون ، گوگل اور مائیکروسوفٹ سےبندھی ہوئی ہیں جودراصل  ہمارے سمارٹ گھروں ، فونز ، اسپتالوں ، سکولوں ، دفاتر یہاں تک کہ پورے شہر کا نظام  چلا رہی ہیں اور ایسی کئی کمپنیاں نگرانی کے نام پر ہمارا ہر احتجاج ، سیاسی جلسہ ، یہاں تک کہ ہر طرح کی  معاشرتی اور سماجی سرگرمی اور آزادانہ میل جول  بھی با آسانی قابو میں لے کر کنٹرول میں رکھ سکتی ہیں  اور ہم اسے سہولت سمجھ کر تن آسانی میں محوو مگن ہیں

اس طرح سامراج امیر سے امیر تر ہو کر بھی با آسانی گمنام رہے گا اور دنیا کی اکثر آبادی کی با آسانی نگرانی کرتے ہوئے انکو مزید محنت، کرنے کمانے اور خرچ کرتے چلے جانے کے لئے بہت سے نت نئے خرید و فروخت پر اکسانے کے اشتہارات اور پروگرام دکھائے اور سنائے جا سکیں گے

یہ در اصل ایک ایسے یعنی غیر مرئی مایہ جال کی تشکیل ہے جس کے چنگل سے صرف خاص طور منتخب شدہ قابل قبول اور سامراج کی حامی ذہنیت کے  حامل  افراد کو ہی ابھر کر دوسری طرف آنے  کا راستہ فراہم کیا جاتا ہے اور خصوصی طور پر سرپرستی کر کے انہیں معاشی طور پر پوری طرح مضبوط بنا دیا جاتا ہے - باقی افراد اپنی سر توڑ کوشش کے باوجود اس مایہ جال کے اندر ہی رہ جاتے ہیں اور ایک خاص حد سے آگے نہیں نکل پاتےاور یہی سوچتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں کے اس معاشی چوہا دوڑ میں مقابلہ بہت سخت اور بے رحم ہے ، جبکہ ایسا جان بوجھ کر بنا دیا گیا ہے جس کا ادراک  بہت  کم لوگوں کو ہوتا ہے

لوگوں کو تعلیم کے نام پر شعور اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے محروم کرنے  کا کام صنعتی انقلاب کے آغاز سے ہی کیا جانے لگا تھا تا کہ وہ ہمیشہ ایک ملازم کی سوچ سے آگے نہ بڑھ سکیں اور یہ کبھی نہ جان سکیں کہ در اصل ان کو معاشی خوشحالی کے اصل طریقوں کی طرف سوچنے سے بھی محروم کرنے کا کام سامراج کے نام نہاد تعلیمی نظام کے ذمے ہے اسی لئے  دنیا کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں تخلیقی صلاحیت کو نکھارنے کا کام تو در کنار ایک مضبوط اور قابل بھروسہ شخصیت کی تشکیل کا اہم ترین کام بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ اس طرح انسان میں شعور جاگ جاتا ہے اور اسے ان باتوں کا ادراک بھی ہو جاتا ہے جن سے سامراجی اور نوآبادیاتی  نظام کی قلعی کھل جاتی ہے

رہی سہی کسر میڈیا کی ایجاد کے بعد پوری کر دی گئی جس کا کام لوگوں کو بلواسطہ انداز میں حرص مال اور اس کو  سنبھال کر رکھنے اور صرف ان چیزوں پر خرچ کرتے رہنے پر اکساتے رہنا ہے جن سے صنعتی اور سامراجی امیر ترین طبقہ کو فائدہ پہنچے اور عام آدمی صرف محنت کر کے ان چیزوں کو خریدے جن سے اس کے خیال میں آرام و آسائش اور تحفظ میں تقویت حاصل ہو نہ کہ کسی انفرادی اور معاشرتی ترقی کے  تعمیری کام پر سرمایہ کاری کرنے لگے - ایسا صرف آپکو مستقل طور پر اضطراب اورمستقبل  کے  خوف میں مبتلا رکھنے سے ممکن ہو سکتا ہے اور یہ کام ہمارا آج کا الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا بخوبی کر رہا ہے

سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی اصل دولت اس کے معدنی اور قدرتی وسائل ہوتے ہیں جن کی مدد سے ہی وہ صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے -مغرب میں  صنعتی انقلاب  کے آغاز میں ہی یہ بات سامراجی ممالک کے صنعت کاروںکو معلوم تھی کہ ان کے کاروبار اور صنعت کی بقا کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز وہ خام مال ہے جو قدرتی اور معدنی وسائل سے حاصل ہوتا ہے

یہ خام مال دنیا کے ان تمام سادہ لوح کم علم ممالک میں کثیر مقدار میں موجود ہے مگر وہاں کے عوام کو اس کا ادراک حاصل نہیں- اس لئے ان پر کسی نہ کسی طرح دسترس حاصل کر کے مغلوب بنا لیا جائے تو خام مال کے ساتھ ساتھ تقریباً مفت کے مزدور اور ملازمین بھی با آسانی حاصل ہو سکتے ہیں

 کرنا صرف یہ ہوگا کہ مفت کی  ٹیکنالوجی   کاجھانسا دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں باور کروا دیا جائے کہ وہ ایک کم علم اور جاہل گنوار قوم ہیں جس کو صرف مغربی طرز کی تعلیم ہی ایک سلجھا ہوا تہذیب یافتہ انسان بنا سکتی ہے - اس طرح ان کی سوچ کو مغرب زدہ محکوم بنا کر ایک ملازم یا غلام میں تبدیل کر دیا جائے

    آپ کو مزے کی بات بتاؤںاپنے اس منصوبے میں یہ سامراجی ممالک انتہائی کامیاب رہے. ہم اور ہمارے جیسے بہت سے دوسرے نو آبادیاتی نظام کے شکار ممالک کئی دہائیوں سے سر جھکائے اپنے قیمتی ترین قدرتی اور معدنی وسائل خام مال کے طور پر کوڑیوں کے مول شمالی امریکا ، یورپ اور خلیجی ممالک کے علاوہ  جاپان اور چین کو برآمد کررہے ہیں۔ پھر ان ہی  سے انتہائی مہنگے داموں ان کی صنعتوں میں تیار شدہ مصنوعات  درآمد کرتے ہیں

   صرف کرومائیٹ ہی نہیں، کاپر، زنک ، فاسفیٹ روک، روٹائیل، باکسائیٹ ،میگناسئیٹ، سونا، کوئلہ پھل, سبزیاں اور زرعی اجناس اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔

سب کچھ اور ساری اصلی  قومی دولت کوڑیوں کے بھاؤ لٹا رہے ہیں اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے پر خوش ہیں. کوئی سننے دیکھنے اور سوچنے پر آمادہ نہیں نہ ہی کہیں کسی فورم پر اس پر بات ہوتی ہے. پھر اسی کفران نعمت کا عذاب ہے جو ان بے شعور قوموں کے سربراہان مملکت کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نے ان سے کہا ہم بھکاری نہیں، بس حالات خراب ہیں، اللہ کے نام پر ہماری مدد کرو اور امداد کے نام پر بھاری سود کے ساتھ قرضے دے دو۔ یہ تو ایسے ہی ہوا نہ کہ گھر میں خزانہ ہی خزانہ دفن ہو اور باپ  اپنے بچوں کے لئے بھیک کے نام پر ان سامراجی بنیوں سے سود پر قرضے مانگتا پھرے

یہ سامراجی اور خود کو جمہوری کہنے والے ممالک اپنی معاشی دہشت گردی میں اس حد تک کامیاب ہیں کہ ہم اور  ہمارے جیسے بہت سے اور سادہ لوح، ادراک  اور شعور سے محروم  ممالک آج تک اپنے سابقہ آقاؤں،  ان کی گوری رنگت ، رہن سہن کے شاندار انداز سے اس حد تک مغلوب اور مرعوب ہیں کہ ان کی طرح کا رہن سہن بول چال اور زندگی کا انداز اپنانا فخر کی بات سمجھتے ہیں اور خود کو اب بھی جاہل،  گنوار بلکہ اور بہت سے برائیوں کا مجموعہ تسلیم کر کے خود سے اور ساری دنیا سے شرمندہ رہتے  ہیں اور نفرت کرنے لگتے ہیں- تبھی تو  ساری دنیا کی ہر فورم اور پلیٹ فارم پر اپنی برائیاں بہت شوق سے بتاتے ہیں اور اپنا ہی  مذاق اڑاتے ہیں

آدھی سے  زیادہ دنیا پر مسلط کیا جانے والا یہ معاشی اور اخلاقی اقدار کے استحصال پر مبنی  نام نہاد جمہوری اور سرمایہ   دارانہ نظام جو در اصل سامراجی بنیوں کی بینکنگ اور نوآبادیات کی جدید انداز میں توسیع کا نظام ہے ،  صرف اصل انسانی اور اخلاقی قدروں ، رسم و رواجات کی بحالی  اور اس تعلیمی نظام کو اپنانے سے غیر موثر ثابت ہو سکتا ہے جس میں دینی و خلاقی تربیت ایک لازمی جزو کے طور پر شامل ہو- جیسا کہ ہمارے بزرگان اور مامورین نے تفصیل سے وضع فرمایا اور ہم اسے چھوڑ کر اندھا دھند مغربی طرز تعلیم اور رہن سہن کی تقلید میں لگے ہوئے ہیں- ہم اگرٹیکنالوجی کو درحقیقت اپنے لئے محفوظ اور موثر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے استعمال کو اپنی دینی، اخلاقی  اورمعاشرتی اقدار کا تا بع کرنا ہوگا

یہی وہ ہماری  دینی اور معاشرتی اقدار، ثقافت اور رہن سہن  ہیں جن کواپنانے سے ہم اپنی ان اعلیٰ ترین ہستیوں کی تقلید میں دانائی اور شعور کی وہ منازل طے کر سکتے ہیں جن کو تاریخ سے حذف کرنے کا کام ایک عرصے سے جاری ہے تا کہ ہم کبھی بھی خود پراور اپنی قوم پر  یقین اور فخر نہ کرسکیں

آئیے اپنی تاریخ کے اوراق کو پھر سے ایک بار پلٹ کر ان میں موجود اپنے اسلاف اور عظیم ہستیوں کے حالات زندگی اور کارناموں پر نہ صرف غور کرنا سیکھیں بلکہ ان کی تقلید کو اپنا نصب العین بنا کر اپنی اصل اقدار کو اپنا لیں اور خود پر یقین کے ساتھ اپنی قوم پر فخر کرنا اوراس کی عزت کرنا سیکھ لیں


کاشف احمد

No comments: